Thursday, 24 November, 2005, 09:04 GMT 14:04 PST
ایم ایس احمد
پٹنہ
بہار کے نئے وزیراعلیٰ نتیش کمار کی عمر تقریباً پچپن سال ہے مگر ان کی والدہ انہیں اب بھی نتیش نہیں منّا ہی کہتی ہیں۔ ان کے حمایتی ان کی سیاسی مہارت کی وجہ سےانہیں ’چانکیہ‘ کہتے ہیں۔ تاریخ کی کتاب لکھنے والے چانکیہ نے کبھی بادشاہت نہیں کی لیکن بہار کا عصری چانکیہ آج ریاست کا مکھ منتری یعنی وزیر اعلی ہے۔
نتیش کمار سن دو ہزار میں وزیر اعلی مقرر کیے گۓ تھے مگر اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے ایک ہفتہ کے اندر ہی استعفی دے دیا تھا۔اس وقت انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ ریاست میں ہی ’کھونٹا‘ گاڑ کر سیاست کریں گے۔ پانچ سال بعد وہ اس کھونٹے پر فتح کا پرچم لہرانے میں کامیاب ہوئے۔
نتیش کمار کی پیدائش نالندہ ضلع کے ہرنوت بلاک کے ایک چھوٹے سے گاؤں کلیان بیگہ میں ہوئی۔ان کے والد کوی راج رام لکھن سنہا آیوروید کے پریکٹشنر تھے۔ تین بہنوں اور دو بھائیوں میں سب سے چھوٹے نتیش نے ابتدائی تعلیم بختیارپور میں مکمل کی۔ بعد میں انہوں نے بہار کالج آف انجینیئرنگ سے بی ایس سی (انجینیئرنگ) کی ڈگری حاصل کی۔
نتیش کمار کی شریک حیات ٹیچر ہیں اور دونوں کی صرف ایک اولاد ہے۔ یہ بھی دلچسپ اتفاق ہے کہ سابق وزیر اعلی رابڑی دیوی صرف ابتدائی تعلیم حاصل کر سکی تھیں اور ان کی اولاد کی تعداد نو تھی۔ دوسری جانب نۓ وزیراعلی اعلی تعلیم یافتہ اور فقط ایک لڑکے کے والد ہیں۔ نتیش کمار کی داڑھی ان کی پہچان ہے جو عمر بڑھنے کے ساتھ بڑھنے کے بجائے گھٹتی گئی مگر ہٹی کبھی نہیں۔
نتیش کمار کا تعلق زراعت کے لۓ مشہور ذات کرمی سے ہے۔ وہ کرمیوں میں اعلی مانے جانے والے اودھیہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ نتیش کمار بہار میں انیس سو چوہتر کی ایمرجنسی مخالف ’جے پی تحریک‘ میں شامل ہوئے مگر نوکری کبھی نہیں کی۔انہیں ایمرجنسی کے دوران مینٹیننس آف انٹرنل سیکیورٹی یا’میسا‘ کے تحت جیل بھی ہوئی۔
دو بار اسمبلی انتخابات میں ناکام ہونے کے بعد انیس سو پچاسی میں پہلی بار وہ ایم ایل اے بنے۔ انیس سو نواسی میں انہوں نے باڑھ پارلیامانی حلقہ سے ایم پی بننے کا موقع حاصل کیا۔ اگلے سال انہیں وی پی سنگھ کی حکومت میں جونیئر منسٹر بنایا گیا۔ انیس سو اکیانوے میں وہ دوبارہ پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔
آج لالو پرساد نتیش کمار کو چھوٹا بھائی کہہ رہے ہیں تو یہ صرف سیاسی اخلاق مندی کا نتیجہ نہیں۔ بلکہ لالو کے وزیر اعلی بننے میں نتیش کمار نے جو رول ادا کیا تھا اس حقیقت کا اعتراف ہے۔ مگر دونوں کے درمیان انیس سو چورانوے میں شدید اختلافات پیدا ہو گۓ اور اسی سال جون میں نتیش نے سمتا پارٹی بناکر لالو سے علیحدگی اختیار کر لی۔
انیس سو پچانوے میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں سمتا پارٹی بری طرح ناکام ہوئی تھی۔ سن دو ہزار کے اسمبلی انتخابات کے بعد انہیں گورنر نے وزیر اعلی تو مقرر کر دیا مگر وہ اسمبلی میں اکثیرت ثابت کرنے میں ناکام ہو گۓ۔ تاہم اس دوران وہ مرکز کی سیاست میں سرگرم رہے۔ اٹل بہار واجپئی کی حکومت میں ریلوے کی وزارت انہیں ملی۔ وہ اب تک چھ بار پارلیمان کے ممبر منتخب ہو چکے ہیں۔
اس وقت رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی کے اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے ممبران نے بغاوت کر کے نتیش کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے اسمبلی تحلیل کیے جانے کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔
نتیش کمار کے سیاسی کیریئر کا کوئی تذکرہ سابق وزیر دفاع جارج فرنانڈس کا ذکر کیے بغیر ادھورا ہی ماناجائے گا۔ لالو سے الگ ہونے کے بعد فرنانڈس ہی نتیش کے ساتھ ہمیشہ رہے۔ نتیش نے اپنے لیے نالندہ جیسے محفوظ حلقۂ انتخاب چھوڑ کر باڑھ سے انتخاب لڑا مگر جارج کو نالندہ سے کامیابی دلائی۔
دونوں کے درمیان دوری کی خبر بھی آتی رہی۔ یہاں تک کے دو ہزار چار میں جارج نے نالندہ سے انتخاب نہ لڑ کر مظفرپور سے انتخاب لڑا۔ نتیش کو باڑھ سے شکشت کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ اپنے دوسرے انتخابی حلقہ نالندہ سے فتحیاب ہوئے۔ آج جب نتیش کمار بہار کے وزیر اعلی بن گۓ ہیں دونوں ایک دوسرے کے شکر گزار نظر آتے ہیں۔