صلاح الدین
بی بی سی اردو ڈاٹ کام دلی
بھارت کےقومی انتخابی کمیشن نے بہار کی ریاستی اسمبلی کےانتخابات کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ انتخابات آئندہ اکتوبر اور نومبر میں چار مرحلوں میں ہوں گے۔
ووٹوں کی گنتی بائیس نومبر کو ہوگی۔گزشتہ ریاستی انتخابات میں کسی ایک اتحاد کو اکثریت نہ ملنے کے سبب وہاں صدر راج نافذ کردیا گيا تھا اور پھر بعد میں اسمبلی تحلیل کر دی گئي تھی۔
سنیچر کوانتخابات کی تاریخیوں کا اعلان کرتے ہوۓ چیف الیکشن کمیشنر بی بی ٹنڈن نے کہا کہ انتخابی اخلاق وضوابط کا نفاذ آج سے ہی شروع ہوجائےگا۔
ان کا کہنا تھا کہ’پہلے مرحلے کے انتخابات اٹھارہ اکتوبر کوہونگے۔ اس دوران اکسٹھ حلقوں میں پولنگ ہوگی۔ چھبیّس اکتوبر کو دوسرے مرحلے میں انہتّرحلقوں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ تیرہ نومبرکو تیسرے مرحلے کےانتخابات میں بہتّرحلقوں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ اکتالیس نششتوں کے لیےانتخابات کا آخری مرحلہ انیس نومبر کو ہوگا اور ووٹوں کی گنتی بائیس نومبر کو شروع ہوگی۔
بہار میں انتخابات کے لیے کمیشن نے سخت حفاظتی بندو بست کا اعلان کیا ہے۔
الیکشن کمشنر نے بہار انتظامیہ کی کاروائیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور مرکزی پیرا ملٹری فورسز کی تعیناتی کا مطالبہ کیا ہے۔ کمیشن نے بہار انتظامیہ سےگنڈہ عناصر پر قابو پانے کی بھی سفارش کی ہے۔
بہار اسمبلی کےانتخابات اسی سال فروری کے مہینے میں ہوئے تھے۔ لیکن حکومت سازی کے لیے کسی جماعت کو اکثریت نہیں ملی تھی۔ تمام کوششوں کے باوجود جب نئی حکومت نہیں بن پائی تو وفاقی حکومت نے وہاں صدر راج نافذ کردیاتھا۔
لیکن آزاد امیدواروں کی مدد سے جب بی جے پی کے قیادت والے این ڈی اے محاذنے حکومت سازی کوششیں تیز کیں تو لالو پرساد یادو اور دوسری جماعتوں نے ارکان کے خرید و فروخت کا الزام عائد کیا تھا۔
انہی الزامات و جوابی الزامات کے درمیان بہار کےگورنر بوٹا سنگھ نے اسمبلی تحلیل کردی تھی۔ بعض ناراض ارکان نےگورنر کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاہے اور اس کی سماعت جاری ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے بہار انتخابات حکمران یو پی اے محاذ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ اسے بی جے پی کی قیادت والے این محاذ سے سخت مقابلہ ہے۔
این ڈے اے گور نر بوٹا سنگھ کے کام کاج کے طریقے پر سخت نکتہ چینی کرتا رہا ہے۔
بہارمیں گزشتہ پندرہ برسوں سے لالوپرپرساد کی جماعت راشٹریہ جنتادل حکمراں رہی ہے۔ اس بار بھی آر جے ڈی کانگریس، بائیں بازو اور رام ولاس پاسوان کی جماعتوں کے درمیان اتحاد کی کوششیں جاری ہیں۔ لیکن انکے درمیان شدیداختلافات ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ متحد نہ ہو سکا تو این ڈی اے ان انتخابات میں بازی جیت سکتا ہے۔