|
کتنی مضبوط ہیں ذات پات کی جڑیں؟ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ایک دلت یعنی پسماندہ ذات کے لڑکے کو مندر میں نیم کے پیڑ سے مسواک بنانے کے لیے شاخ توڑنے کی سزا یہ دی گئی ہے کہ اسے لاٹھیوں سےماراگيااور پھر اس کے بعد گاؤں کے تمام دلتوں کا سماجی بائیکاٹ کر دیا گیا۔ دارلحکومت دلی سے پچپن کلو میٹر دور بڑھ رام گاؤں کے دلتوں کا کہنا ہے کہ گاؤں کی دکانوں سے کہا گیا ہے کہ کوئی انہیں سامان فروخت نہیں کرے گا اور اگر کوئی ایسا کرےگا تو اس پر جرمانہ عائد کیا جائےگا۔ لیکن اونچی ذات لوگوں نےان الزامات کی تردید کی ہے۔ دلتوں نےاونچی ذات کی پنچايت کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیاتھا اسی لیے یہ لوگ ان سے ناراض ہیں۔
دلتوں کا کہنا تھا کہ وہ صرف عدالت کا فیصلہ تسلیم کریں گے۔ اعلی ذات کے ہندو بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’مسواک‘ کے لیے نیم کی شاخ توڑنے پر لڑکے کو مندر کے پجاری نے اور کچھ دوسرے لوگوں نے بھی مارا پیٹا تھا لیکن ان کے سماجی بائیکاٹ کا الزام غلط ہے۔ عطر سنگھ کا کہنا تھا ’چونکہ انکے خلاف پولیس کیس ہوگيا ہے اس لیے وہ ہم پر مقدمہ چلانے کے لیے اس طرح کے الزامات لگا رہے ہیں‘۔ لیکن دلتوں کی بستی کچھ اور کہتی ہے، وہاں کئی افراد کے سروں، کمر اور آنکھوں میں چوٹیں آئی ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کا اس پنچایت سے کوئی تعلق نہیں جس میں ان کی برادری کاکوئی نمائندہ نہ ہو۔ سکھّن نامی ایک دلت نے بتایا ’وہ پنچایت جاٹوں کی ہے۔ ہمارا اس میں ایک آدمی نہیں ہے اور کئی بار جب ہم نے پنچایت کے فیصلے سے انکار کیا ہے تو ہمیں مارا پیٹا گيا ہے‘۔ ایک تلخ حقیقت یہ کہ اس پورے تنازعے میں پولیس نے گرفتار بھی صرف سات دلتوں کو کیا ہے کسی بھی جاٹ کو نہیں۔ اونچی ذات کے کچھ نوجوان لڑکوں سے بات کرنے پر اس پورے تنازعے کی مزید گتھیاں کھلیں۔
ایک لڑکے نے بتایا’جب سے دلتوں نے بھیم راؤ امبیڈکر کا مجسمہ لگایا ہے وہ ہندوؤں کی کوئی رسم نہیں مناتے۔ ہماری ساری برادری یہ مانتی ہے کہ مندر میں جاکر دلتوں نے ہندو دھرم پر حملہ کیا ہے۔ لیکن ناراضگی صرف اسی بات پر نہیں ہے‘۔ ایک دلت خاتون ریشم کا کہنا تھا ’اب دلت اونچی ذات کے ہندوؤں کی غلامی نہیں کرتے۔ پہلے ہم سے تمام کام لیے جاتےتھے۔ چاہا تو پیسےادا کیے ورنہ نہیں دیے۔ لیکن اب ہمارے لڑکے جاٹوں کا ایسا دباؤ نہیں ماننا چاہتے‘۔ گاؤں کے پاس گندگی پھینکنے والی ایک خالی جگہ کو دلتوں نےصاف کر کے پارک بنا دیا ہے۔ اس میں ڈاکٹر امبیڈکر کا ایک مجسمہ بھی نصب ہے۔ اونچی ذات کے ایک آدمی کا کہنا تھا کہ اسکی برادری کے لوگوں نے رات کو ایک بار مجسمےکو توڑ دیا تھا۔ اس سےاس علاقے میں مزید تناؤ پیدا ہوگیا ہے۔
دلی سے ذرافاصلے پر باڑھ رام گاؤں کی کہانی ذات پات کے مضبوط تانے بانے کی تصویر پیش کرتا ہے۔ آج بھی ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ذات پات کی بنیادیں اتنی سخت ہیں کہ انکے نیچے انسانیت کو زندہ دفن کیا جا سکتاہے۔ |
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||