|
بچوں کی شادی سے منع کرنے کی سزا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش میں حکام نے اس خاتون سماجی کارکن پر حملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں جو علاقے کے ایک گاؤں میں بچوں کی شادی کے خلاف مہم چلا رہی تھی۔ سماجی کارکن شکنتلا ورما پر منگل کے روز حملہ کیا گیا اور ان کا ایک ہاتھ کاٹ دیا گیا جبکہ دوسرے ہاتھ پر شدید زخم آئے ہیں۔ ریاستی حکام کہتے ہیں کہ سماجی کارکن بھنگر نامی گاؤں میں جو بھوپال سے ایک سو ستر میل کے فاصلے پر واقع ہے، لوگوں کو بچوں کی شادی سے منع کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ریاست میں بچوں کی شادی ممنوع اور غیر قانونی ہے لیکن گاؤں میں رہنے والے بعض بچوں کی شادی آج بھی زبردستی کر دی جاتی ہے۔ مدھیہ پردیش میں میں ایک اعلیٰ سرکاری ملازم پی اوجا نے بتایا کہ شاید یہ حملہ اس لیے کیا گیا ہو کہ گاؤں والے بچوں کی شادی کے خلاف شکنتلا ورما کے خیالات سے سیخ پا ہو گئے ہوں۔ شکنتلا ورما گزشتہ چار دن سے اس گاؤں میں تھیں اور لوگوں کو سمجھا رہی تھیں کہ بچوں کی شادیاں کرنا درست نہیں ہے۔ تاہم ریاست کے وزیرِ اعلیٰ بابو لال گور کا کہنا ہے کہ ’اس رسم کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ کیا ہم چھوت اچھوت کے معاملے یا شراب خوری کو روک سکے ہیں؟ اگر گاندھی ان معاملات میں کامیاب نہیں ہو سکے تو بابو لال گور کیسے ہو سکتا ہے؟‘ ضلعی پولیس سربراہ آر این بورنا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ شکنتلا ورما پر مستقبل کی دلہن کے بھائی نے حملہ کیا۔ بچوں کی شادی کے خلاف راجستھان میں بھی ایک بھرپور مہم چلائی گئی ہے۔ اس رسم کے خلاف سرگرم لوگوں کا کہنا ہے کہ قانوناً بچوں کے والدین، وہ مقام جہاں ایسی شادیاں ہوتی ہیں اور وہ مذہبی رہنما جو ایسی شادیاں کراتے ہیں ان سب کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے اور متعلقہ افراد کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اس سال یہ شادیاں کم تعداد میں ہوئی ہیں کیونکہ پولیس نے ان کے سدِ باب کے لیے کڑے اقدامات کیے ہیں۔ |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||