Tuesday, 05 April, 2005, 08:29 GMT 13:29 PST
شکیل اختر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سرینگر
سرینگر۔مظفرآباد بس سروس کے آغاز کے لیے تمام تیاریاں تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں اور سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔
سرینگر سے لے کر اوڑی اور مزید آگے سلام آباد تک پورے راستے کو سجایا گيا ہے اور جگہ جگہ امن اور دوستی کے بینرز لگے ہوئے ہیں۔
ان تیاریوں کے ساتھ ساتھ حفاظتی انتظامات بھی انتہائی سخت کر دیے گئے ہیں۔ جگہ جگہ لوگوں کی تلاشیاں لی جا رہی ہیں اور نئے چیک پوسٹ قائم کیےگئے ہیں۔ وادی کی علیحدگی پسند تنظیموں نے حفاظتی انتظامات کے نام پر شہریوں کو ہراساں کیے جانے کی مذمت کی ہے۔
حریت کانفرنس کے رہنما سیدعلی شاہ گیلانی نے الزام لگایا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے سرینگر اور دیگر مقامات پر متعدد نوجوانوں کو حراست میں لیا ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کئی گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں۔
میرواعظ مولوی عمر فاروق نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ’جیسے کشمیر کو فوجی قلعے میں بدل دیاگیا ہو۔‘
سات اپریل کو سرینگر۔مظفرآباد جانے والی بس سروس کے آغاز کی وجہ سے لوگ خوش نظر آرہے ہیں لیکن سبھی کا یہ کہنا ہے کہ بس سروس کا فائدہ اسی صورت میں ہوگا جب یہ مسئلہ کشمیر کے حل میں مددگار ہو۔
کنٹرول لائن کے نزدیک اوڑی جیسے قصبے میں بیشتر باشندوں کو شکایت تھی کہ انہیں ابتدائی بسوں میں جگہ نہیں دی گئی جبکہ سب سے زیادہ منقسم خاندان یہیں کے رہنے والے ہیں۔
بارہ مولہ کے لوگ رشتےداروں سے ملنے کی امید میں تو خوش ہیں ہی۔وہ اس بات پر بھی خوش ہیں کہ حالات بہتر ہونے پر تجارت کے راستے کھل سکتے ہیں۔
اسلام آباد میں مظفرآباد سے آنے والی بس کے مسافروں کے لیے استقبالیہ مرکز بنایا گیا ہے۔ کمان پوسٹ سے لیکر سرینگر تک تقریباً ایک سو بیس کلومیٹر کے راستے میں ہر جگہ فوج اور پولیس کے اہلکار تعینات کیے گئے ہیں اور بسیں انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کے سائے میں چلیں گی ۔ ساتھ ہی ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کی گاڑياں بھی ہوں گی ۔ سینکڑوں ملکی اور بین الاقوامی صحافی اس واقعہ کی رپورٹنگ کے لیے سرینگر پہنچ رہے ہيں۔