Wednesday, 22 September, 2004, 00:40 GMT 05:40 PST
امریکی صدر جارج بش اپنی سخت انتخابی مہم میں خواہ کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں لیکن انہوں نےبھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ ناشتے کا وقت نکال کر بھارت کے ساتھ مضبوط تعلقات کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔
توقع ہے کہ دونوں رہنماؤں کی بات چیت میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری متعدد امن اقدامات کا ذکر بھی شامل رہے گا۔ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد مسٹر سنگھ کی یہ پہلی بڑی سفارتی ملاقات ہے۔
من موہن سنگھ 24 ستمبر کو پاکستانی صدر پرویز مشرف سے بھی ملاقات کریں گے۔
جارج بش اور من موہن سنگھ بھارت اور امریکی تعلقات کا جائزہ لیں گے جس میں تجارتی تعلقات اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ بھی شامل ہے۔
چونکہ مسٹر سنگھ ملک میں اقتصادی اصلاحات کے بانی رہے ہیں اس لئے توقع ہے کہ بھارت اپنے یہاں مزید امریکی سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کرے گا۔
بھارت میں امریکی سفارت کار ڈیوڈ ملفورڈ نے بینکنگ کے نظام میں اصلاحات پر زور دیا تھا تا کہ وہاں امریکی کمپنیوں کو سرمایہ کاری میں آسانی ہو۔
لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات میں جو مرکزی نکتہ ہے اسے’این ایس ایس پی‘ کہا جا سکتا ہے یعنی تدبیری معاملات میں اٹھنے والا اگلا قدم جس کا مطلب ان چار معاملات میں تعاون ہے جن پر تعلقات استوار کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں گیا تھا۔
ان شعبوں میں غیر فوجی جوہری پروگرام، خلائی تحقیق، اعلیٰ ٹیکنالوجی کی تجارت اور میزائلوں کا دفاعی نظام شامل ہیں۔
گزشتہ دو ماہ سے دونوں ملکوں کے افسران اس سلسلے میں اختلافات کو دور کرنے کے لیے معاہدے کی تفصیلات طے کرنے میں مصروف ہیں تا کہ این ایس ایس پی کو آگے بڑھایا جا سکے۔
خیال ہے کہ ابتدائی دشواریوں کے بعد دونوں فریق معاہدے کے پہلے مرحلے کو پورا کرنے کے نزدیک ہیں۔
امریکہ جنوبی ایشیا میں جاری امن اقدامات کے ساتھ ساتھ بھارت اور پاکستان کے وزراء خارجہ کی بات چیت پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔
امریکی افسران کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں لمحہ بہ لمحہ ردِ عمل ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن وہ امن اقدامات کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل نے بھارت اور پاکستانی وزراء خارجہ کے درمیان دہلی میں مذاکرات سے قبل ان سے دونوں سے ملاقات کر کے اس سلسلے میں امریکہ کی حمایت ظاہر کی تھی۔
بعد میں انہوں نے کہا تھا کہ دونوں وزراء نٹور سنگھ اور خورشید محمود قصوری نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ دونوں ملکوں کو جن مسائل کو حل کرنا ہے ان میں سے ایک مسئلہ کشمیر بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک بہت پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس کے حل میں وقت لگے گا اور دونوں فریق جانتے ہیں کہ اس مسئلہ کو حل کرنا ہوگا۔
کولن پاؤل کا یہ جملہ اہم ہے کیونکہ یہ کشمیر سے متعلق بھارت کے موقف سے ملتا جلتا ہے کہ کشمیر ان مسائل میں سے ایک ہے جس کو حل کیا جانا چاہیے۔
دوسری طرف صدر مشرف نے حال ہی میں فوجی افسران سے کہا ہے کہ ’ہم کشمیر کو نہیں چھوڑیں گے، ہم نے اس کے لئے جنگیں لڑی ہیں۔اور پاکستان کشمیریوں کے مفاد کو یقینی بنائے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ’میں من موہن سنگھ سے مل کر اس مسئلہ پر اپنے ملک کے موقف کو صاف طور پر میں واضح کروں گا‘۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وہ صرف اپنے عوام سے بات کر رہے تھے۔
صدر مشرف کے ان جملوں نے دہلی میں کسی طرح کا اشتعال پیدا نہیں کیا۔ یہ اس بات کی طرف ایک اشارہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت ہو رہی ہے۔
نیویارک میں مشرف اور من موہن سنگھ کے درمیان ملاقات کی تیاری کے لئے بھارت میں قومی سلامتی کے وزیر جے این دکشت اور ان کے پاکستانی ہم منصب طارق عزیز کے درمیان کم از کم تین خفیہ ملاقاتیں ہوئیں۔
اطلاعات ہیں کہ دونوں ملک مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے تین راستوں پر غور کر رہے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم صدر بش کے ساتھ ملاقات میں کشمیر میں سرحد کے اس پار سے جاری شدت پسندی کے مسئلہ کو اٹھائیں ۔
ایک بھارتی سفارت کار نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ان سے کہا ہے کہ
اگر یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے تو پھر آپ اس کی الگ الگ تشریح نہیں کر سکتے جس میں القاعدہ کے لئے کچھ اور ہے اور پاکستان سے سرگرم کشمیری شدت پسندوں کے لئے کچھ اور۔
امریکہ کی اس متضاد پالیسی کو اجاگر کرنے کی بھارت کی کوششوں کے باوجود اس بات کا امکان نہیں ہے کہ صدر بش جو بدھ کو صدر جنرل پرویز مشرف سے ملنے والے ہیں کھلے عام پاکستان پر تنقید کریں گے۔