BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت: Tuesday, 03 August, 2004, 15:08 GMT 20:08 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
انتخابی اصلاحات: خصوصی سفارشات
 

 
 
محمد شہاب الدین
محمد شہاب الدین بھی ان سیاستدانوں میں شامل ہیں جنہیں مقدمات کا سامنا ہے
ہندوستان میں قومی انتخابی کمیشن نے حکومت کو انتخابی اصلاحات کے لیے چند اہم سفارشات دی ہیں۔

کمیشن نے وزیراعظم سے اپیل کی ہے کہ سیاست کو جرائم سے علیحدہ رکھنے کے لیے ملک کے انتخابی عمل میں اصلاحات بہت ضروری ہیں اور موجودہ حالات میں اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ملک کے چیف الیکشن کمشنر ٹی ایس کرشنا مورتی نے وزیراعظم من موہن سنگھ کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ کمیشن کی سفارشات پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ جلد ہی اس سلسلے میں کچھ قوانین مرتب کیے جاسکیں تاکہ جن ریاستوں میں جلد ہی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں وہاں انکا مؤثر نفاذ ہو سکے۔

کمیشن کے اہم سفارشات یہ ہیں:
1 ) انتخابات میں پرچہ نامزدگی داخل کر تے وقت امیدوار کو اپنے مجرمانہ ریکارڈ، جائداد اور آمدنی کے متعلق ایک حلف نامہ داخل کرنا ہوگا۔
اس کے متعلق سپریم کورٹ نے گزشتہ سال ہی ہدایات جاری کی تھیں لیکن کمیشن کا کہنا ہے اسے مزید سخت بنانے کی ضرورت ہےتاکہ اگر کوئی غلط اطلاعات فراہم کرے تو اسکے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔

2) ضمانت کی رقم میں اضافہ کیا جائے۔
قانون کے مطابق لوک سبھا کا انتخاب لڑنے پر دس ہزار روپے اور ریاستی اسمبلی کے لیے پانچ ہزار روپے بطور ضمانت جمع کرنا ہوتا ہے۔ کمیشن نے یہ رقم بالترتیب لوک سبھا کے لیے بیس ہزار اور اسمبلی کے لیے دس ہزار کرنے کی سفارش کی ہے۔

3) سیاست میں جرائم پیشہ عناصر کو روکنے کے لیے ایک ایسا قانون بنایا جائے جس کے ذریعے تمام مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے افراد کو الیکشن میں حصہ لینے سے باز رکھا جا سکے۔
اپنی تجاویز میں کمیشن نے کہا ہے کہ جن افراد پر سنگین قسم کے مجرمانہ مقدمات چلانےکے کورٹ کی نظر میں واضح ثبوت ہوں ان کو انتخابات میں حصہ لینے سے باز رکھا جائے۔

4) ایک امیدوار کو بیک وقت دو جگہ سے انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہۓ ۔
موجودہ قانون کے تحت کوئي بھی امیدوار ایک ہی وقت میں دو حلقہ انتخاب سے الیکشن لڑ سکتا ہے ۔اگر سیاسی جماعتیں اس تجویز کے حق میں نہیں ہیں تو کم سے کم یہ لازم قرار دیا جائے کہ اگر امیدوار دونوں ہی سیٹوں سے کامیاب ہوجا ئے تو خالی کردہ سیٹ کے ضمنی انتخابات کے لیے وہ خرچہ مہیا کرے۔ کمیشن نےلوک سبھا انتخابات کے لیے خرچ کی رقم دس لاکھ رکھی ہے جبکہ اسمبلی کے لیے یہ رقم پانچ لاکھ روپے ہے۔

5) سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے پر اشتہار بازی پر پابندی لگائی جائے۔
گزشتہ عام انتخابات کی مہم میں سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف پس پردہ زبردست اشتہار بازی کی تھی۔ اس سلسلے میں کمیشن کو بہت سی شکایات بھی موصول ہوئی تھیں۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ اس پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے اور کوئی بھی اشتہار کسی بھی سیاسی جماعت یا امیدوار کے خلاف شائع نہیں کیا جاسکتا ہے جب تک کہ شائع کرنے والے کا نام اور پتہ اس اشتہار کے ساتھ ہی درج نہ ہو۔

5) منفی یا نیوٹرل ووٹ ڈالا جا سکے۔
کمیشن نے کہا ہے کہ قانون میں تبدیلی کے ذریعے رائے دہندگان کو یہ حق بھی ملنا چاہیے کہ اگر وہ چاہے تو منفی ووٹ ڈالے یعنی کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دیکر وہ ایسے کالم پر بٹن دبائے جو یہ ظاہر کرے کہ اسے اپنے حلقہ انتخاب میں کوئی بھی امیدوار پسند نہیں ہے۔ کمیشن نے کہا ہے کہ اسکے لیے ایک خصوصی کالم کا اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک سفارش میں انتخابی کمیشن نےانتخابی جائزوں اور اگزٹ پول پر بھی سختی سے پابندی عائد کرنے کی تجاویز پیش کی ہیں اس سلسلے میں کمیشن نے کئی بار سیاسی جماعتوں سے بھی اپیل کی تھی اور بعد میں اس پر پابندی کے احکامات بھی جاری کیۓ تھے لیکن عدالت کی مداخلت سے معاملہ وقتی طور پر رفع دفع ہوگیاتھا اس بار اس نے پھر تاکید کی ہے کہ اس طرح کے سروے سے انتخابی عمل پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لیۓ اس کے تعلق سے کچھ سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔

اپنی اہم تجاویز میں کمیشن نے کہا ہے کہ سبھی سیاسی جماعتوں کو سال میں کم سے کم اپنے بینک اکاؤنٹ کی اطلاعات فراہم کرنی چاہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ سیاسی جماعتیں کس طرح پیسہ خرچ کرتی ہیں اور انہیں رقومات کہاں سے ملتی ہیں۔

اسی طرح کی بہت سی تجاویز انتخابی عمل میں انتظامیہ کی اصلاحات کے لیے بھی ہیں۔ یہ تمام سفارشات ایک ایسے وقت آئی ہیں جب مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے وزراء کے خلاف احتجاج کے باعث پارلیمان کا کام کاج رک گیا ہے۔ اور تعطل کسی حد تک ابھی بھی برقرار ہے۔ سابقہ حکومت کے خلاف کانگریس نے بھی مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے وزراء کے تعلق سے ایسا ہی رویہ اپنایا تھا۔

سبھی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف اس طرح کی بیان بازیاں کرتے رہے ہیں لیکن حقیقی معنوں میں سیاست میں جرائم کی آمیزش میں کمی نہیں آئي ہے اور ایک بڑی تعداد میں ایسے افراد پارلیمان پہنچتے رہے ہیں جن کے خلاف کئی سنگین معاملات میں مقدمات عدالت میں زیر سماعت ہیں۔ ظاہر ہے کہ الیکشن کمیشن نے انہیں وجوہات کی بناء پر ایسی تجاویز پیش کی ہیں لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ اسے عملی جامہ کیسے پہنایا جائے؟ کیا سیاسی جماعتیں اس بارے میں سنجیدہ ہیں؟

 
 
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد