انتیس اکتوبر کو ترکی میں ایک جدید جمہوریہ کے قیام کی اسی ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔ اسی سال قبل خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مصطفٰی کمال پاشا اقتدار میں آئے تھے جس کے بعد سے ملک میں جمہوریت، جدید نظریہ اور حقوق انسانی کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں ترکی کے اندر اسلامی گروہوں اور سیکولر فوج کے درمیان نظریاتی ٹکراؤ دکھائی دیا ہے۔
بعض اسلامی گروہوں کا کہنا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے سے مسلم دنیا ایک مرکزی قیادت سے محروم ہوگئی اور مسلم ممالک بین الاقوامی سیاست سے اپنا رسوخ کھو بیٹھے۔ جبکہ دوسری طرف کئی لِبرل حکومتوں کے سربراہ انہیں اپنا ہیرو بھی مانتے ہیں جیسا کہ پاکستان کے صدر پرویز مشرف۔ مصطفیٰ کمال پاشا نے خلافت کا خاتمہ کیا اور ملک میں جدیدیت کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ ترکی کی سیکولر قیادت ملک میں اصلاحات کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ یورپی یونین میں شامل ہونے کی اہلیت اختیار کرنے کے لئے ترکی نے حال ہی میں موت کی سزا ختم کردی ہے۔
کیا مصطفیٰ کمال پاشا کی پالیسیاں آج کے دور میں دیگرمسلم ملکوں کے لئے مفید ہوسکتی ہیں؟
----------------- یہ فورم اب بند ہو چکا ہے، قارئین کی آراء نیچے درج ہیں------------------
احمد وقائع، ڈنمارک
اسلام کے نفاذ کا واحد راستہ خلافت ہے۔ جمہوریت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ مغرب کی پیداوار ہے۔
فدا ایچ زاہد، کراچی، پاکستان
جو چیز اللہ اور رسول کی تعلیمات کے خلاف ہو وہ فائدہ مند کیسے ہو سکتی ہے؟ مصطفٰی کمال کی جدیدیت بھی کچھ ایسی ہی تھی اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کمال پاشا کی جدیدیت ترقی کے لیے بہتر ہے وہ اندھیرے میں ہیں۔
ہمایوں ارشد احمد، کراچی، پاکستان
خلافت، عالم اسلام کے مسائل کے حل کا واحد اور بہترین راستہ ہے۔ اس کے ذریعے مغربی اور مسلم ممالک کے مابین بہتر طور پر افہام و تفہیم کی صورت حال پیدا کی جا سکتی ہے۔ اسلامی خلافت، دہشت گردی کے تمام مسئل بھی حل کر دے گی کیونکہ مغربی ممالک کی دہشت گردانہ کارروائیاں مسلمان نوجوانوں کو پرتشدد ردعمل پر راغب کرتی ہیں۔
عبدالواحد حاکمی، جرمنی
مصطفیٰ کمال کی پالیسیاں مسلمانوں کے لئے زہرِقاتل ہیں۔ آج دنیا میں مسلمانوں کے جو حالات ہیں اس میں ایک بڑا حصہ اسلامی نظام اور ایک مرکزی قیادت کے خاتمے کا ہے۔ مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل خلافت کی ازسرِّ نو تجدید ہے جو زمین پر اللہ کا نظام قائم کرے اور ہر عصبیت سے بالاتر ہو کر مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائے۔
شوکت جنگ، مردان، پاکستان
جدید ترکی سے خلافتِ عثمانیہ کہیں بہتر تھی کیونکہ اس نے پوری امتِ مسلمہ کو متحد کر رکھا تھا۔
شیما صدیقی، کراچی، پاکستان
جمہوریت اسلام سے الگ کوئی چیز نہیں۔ کسی بھی ملک کے حالات اور عوام کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہئے۔
فہیم یونس، بالٹی مور، امریکہ
جمہوریت اور خلافت میں کوئی تضاد نہیں۔ یہ غلط ہے کہ مصطفیٰ کمال پاشا نے خلافت کا خاتمہ کیا۔ یہ ان کے اختیار ہی میں نہ تھا۔ جمہوریت ہمیں فکری آزادی اور معاشی استحکام عطا کرتی ہے۔ مستقبل میں اگر کوئی بہترین اسلامی ثقافت ہوگی تو وہ جمہوریت اور خلافت کا امتزاج ہوگا۔
انور عزیز، حیدرآباد، پاکستان
خلافت مسلمان بھائی چارے کی روح تھی اور اس کا خاتمہ ایک غلطی تھی جس میں صرف مصطفیٰ کمال پاشا ہی نہیں کچھ اور طاقتور ہاتھ بھی شامل تھے۔
محمد ریاض، کویت
اس جمہوری حکومت سے خلافت ہزار درجے بہتر تھی۔ اس اسلامی حکومت میں لوگوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی جو اب نہیں ہے۔
عمران مرزا، کویت
جدیدیت اسلام سے پیدا ہوئی ہے نہ کہ مغرب سے۔ اگر حجاب پہننے کی ہی آزادی نہیں تو کیسی جدیدیت۔
محمد عبدالوحید ناصر، حیدرآباد، بھارت
مصطفیٰ کمال پاشا مغرب کے ایجنٹ تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی تباہی میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے خلافت کو ختم کیا جو ہمارے لئے ایک سبق ہے۔ ہمیں مذہب، نسل اور قومیت سے بالا تر ہو کر امن قائم کرنا چاہئے اور واحد راستہ پھر سے خلافت کا قیام ہے۔
ایس مفکر، اسلام آباد، پاکستان
پہلی جنگِ عظیم کے بعد ترک خلافت کافی کمزور پڑ گئی تھی جس کی وجہ سے اس کا خاتمہ ہوا۔ پھر قومی جمہورتوں کا دور شروع ہو چکا تھا اور مصطفیٰ کمال پاشا نے اپنے ملک کو جمہویت سے متعارف کروایا۔ رہی بات کہ جمہوریت یا سیکولرازم اسلامی خلافت سے کتنی متصادم ہے تو اسلامی سیاسی نظام کی بنیاد ہی جمہوریت اور رواداری ہے۔ ترکی کا جہاں تک تعلق ہے تو وہاں لامذہبیت اور مغربی جمہوریت نظر آتی ہے اور یورپی تہذیب کے اثرات بھی کافی ہیں جس کی وجہ سے ہم مسلمان جمہوریت یا سیکولر ازم کو قصوروار ٹہراتے ہیں۔
رانا ظفراللہ، ٹورنٹو، کینیڈا
میں نے ان میں سے کچھ آراء پڑھیں۔ پاکستان سے آنے والے زیادہ تر خطوط میں اتاترک کو اچھا کہا گیا ہے جب کہ بیرونِ ملک سے آنے والے خطوط ان کے خلاف ہیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں یہ مسلم امہ کے لئے ایک غلطی ہے، ہم سب کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا چاہئے۔
عبدالصمد، اوسلو، ناروے
مغربی سامراج چن چن کر اسلامی ممالک کو تباہ کرتا جا رہا ہے اور اپنے مقاصد ہمیشہ کچھ موچعہ پرستوں کو ڈھونڈھ نکالتا ہے جیسے کہ پچھلی صدی میں اتاترک اور آج احمد شلابی۔ چونکہ یہ یورپ میں واحد مسلمان اکثریت کا ملک ہے اس لئے اسے یورپین یونین کی رکنیت سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ مگر پھر بھی ہم مغرب کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ آخر ہم کب نیند سے جاگیں گے۔
فدا محمد، ٹورنٹو، کینیڈا
مصطفیٰ کمال پاشا بیسویں صدی کے عظیم رہنماؤں میں سے ہیں جنہوں نے نہ صرف ترکی کو سازشوں سے بچایا بلکہ اپنے لوگوں اور ملک کو ایک عہد جدید کی قوم میں ڈھالا۔ اگر وہ نہ ہوتے تو ترک بھی آج کردوں کی طرح مختلف سرحدوں میں تقسیم ہوتے۔ مسلمانوں کی بلوغیت اور ترقی کے لئے ان کی آج بھی ضرورت ہے۔ یہ بات ہمارے ملاؤں اور بیروزگار سیاست دانوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے کہ سلطنتِ عثانیہ یورپ میں بہت آگے تک چلی گئی تھی جہاں اس نے لوگوں کو تشدد اور دہشت کا نشانہ بنایا۔ حتیٰ کہ ایرانیوں کو بھی اسکے خلاف کھڑا ہونا پڑا۔ اس لئے اسے تباہ ہونا ہی تھا۔ ابھی وقت ہے کہ پاکستان اور دوسرے مسلمان ممالک اتاترک کے راستے پر چلیں۔
منظور حسین چوپان، کوئٹہ، پاکستان
ترکی ایک مطلق العنان ریاست بن چکا ہے جہاں جمہوریت صرف ترک قوم کے افراد کے لئے ہے۔
ابو محسن میاں، سرگودھا، پاکستان
کمال اتاترک کی پالیسیوں نے جب ترکی کو ہی تباہ کر دیا ہے تو دوسروں کے لئے مفید کیسے ثابت ہو سکتی ہیں۔ ان کی تعلیمات اسلام سے دور ہیں اور یہ مشرف کے لئے تو ٹھیک ہو سکتی ہیں، مسلمانوں کے لئے نہیں۔
ساجد خان، پشاور، پاکستان
مصطفیٰ کمال پاشا نے تمام اسلامی اصولوں کا خاتمہ کر دیا اور مسلمان اس نقصان کو کبھی نہیں بھولیں گے۔
حسن عسکری، پاکستان
بہت ساری خرابیوں کا حل درمیانی راستہ ہے۔ جہاں متشدد عناصر درمیانہ روی سے دور ہیں وہاں اتاترک کے پیروکار بھی انتہا پسند ثابت ہوئے ہیں کہ عورتوں کا حجاب بھی اتروا رہے ہیں۔ اتنی سختی تو مغرب میں بھی نہیں ہوتی۔
فرحت اللہ اخوندزادہ، دیر، پاکستان
ہم جدیدیت چاہتے ہیں لیکن اسلامی جدیدیت۔ کمال اتاترک کا ’ہول سیل سیکولر ازم‘ نہیں چاہئے۔
شاہنواز نصیر، کوپن ہیگن، ڈنمارک
ترکی کی جمہوریت کو جمہوریت نہیں قرار دیا جا سکتا جہاں سارے اختیارات فوج کے پاس ہیں۔ جہاں تک مغرب کی تقلید کی بات ہے تو یہ ترکی کی ایک بھونڈی سی کوشش ہے۔ ہمیں جو بھی نظام اپنانا ہوگا اس میں اسلامی اقدار کا پاس اور اسے ملاؤں سے محفوظ رکھنا ہوگا جو کبھی مذہب اور کبھی فرقوں کے نام پر خون بہانا شروع کردیتے ہیں۔
محمد اصغر، فیصل آباد، پاکستان
مسلمانوں کی ہمیشہ ایک مرکزی قیادت ہونی چاہئے جیسا کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں ہوتا تھا۔ یہ تبھی ممکن ہے اگر ایک مرکزی قیادت ہو جس کےلئے خلافت قائم کرنا بہت ضروری ہے۔
شیخ فیصل، خوشاب، پاکستان
مصطفیٰ کمال پاشا نے اچھا نہیں کیا۔ یہ اسلام کے خلاف تھا۔ اگر خلافت رہتی تو مسلم امہ کے حالات آج مختلف ہوتے۔ ان کی پالیسیاں اسلامی دنیا کے لئے درست نہیں۔
محمود جوہر، ویانا، آسٹریا
مصطفیٰ کمال ایک یہودی اور اسلام کے خلاف تھے۔
حسن شوکت، پاکستان
جب بھی مسلمان خلافت کے راستے پر چلے ہیں انہوں نے ہر شعبے میں ترقی کی ہے لہٰذا یہی بہتر ہے۔
علی ارباز خان، اسلام آْباد، پاکستان
کمال اتاترک نے اچھا کام کیا لیکن وہ تناسب برقرار نہیں رکھ سکے۔ لادینیت اور جدیدیت میں فرق ہونا چاہئے۔ جدید ترکی ہونا چاہئے لیکن اتنا بھی نہیں کہ ایک عورت کے حجاب پہننے سے اس کی جدیدیت خطرے میں پڑ جائے۔ مغرب عورتوں کو مختصر لباس میں گھومنے کی آزادی بھی تو دیتا ہی ہے۔ رہی خلافتِ عثمانیہ کی بات تو اس کا مسلمانوں کی وحدت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ صرف ایک ٹوپی ڈرامہ تھا۔ البتہ مسلم وحدت ضروری ہے۔
جاوید قیصرانی، ڈیرہ غازی خان، پاکستان
یہ اچھا خیال ہے۔
مختار احمد، پشاور، پاکستان
پیغمبرِ اسلام نے تمام مسلمانانِ دنیا کو ایک جسدِ واحد سے تشبیہ دی ہے لہٰذا ایسی کوئی بھی کوشش جو مسلمانوں کے درمیان تفریق اور انتشار کا سبب بنے، اسلام کی رو سے جرم ہے۔ مصطفیٰ کمال پاشا نے مسلمانوں کو ان کے فطری نظام سے محروم کر دیا تھا۔ آج بھی مسلمانوں کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ ایک جمہوری خلافت قائم کریں۔
ابرار، بالٹی مور، امریکہ
اس وقت خلافت کا خاتمہ ایک غلط فیصلہ تھا کیونکہ مسلمانوں کو ایک مرکزی قیادت کی اتنی ضرورت کبھی نہ تھی جتنی اس وقت اور اس سے دنیا بھر میں مسلمانوں کے حوصلے پست ہوئے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو آج بیسویں صدی کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔ یقیناً مسلمانوں کو ایک مرکزی قیادت کی ضرورت ہے اور اسی وجہ سے آج ان کی کوئی سمت نہیں دکھائی دیتی۔ تاہم آج کے عہد میں اس قیادت کو جمہوری اور پوری اسلامی دنیا کا نمائندہ ہونا ضروری ہے اور اسے کسی ایک ملک یا قوم تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔ اس کی بدولت مسلمانوں اور مغرب کے درمیان مکالمہ آسان ہوگا اور ان دونوں کے درمیان کئی تضادات کا حل ممکن ہوگا۔
محمد الطاف، اٹک، پاکستان
اکیسویں صدی میں خلافت کے بارے میں سوچنا بچگانہ بات ہے۔ اگر ترک اپنی جمہوریت سے خوش ہیں تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں۔ انہیں اپنی مرضی کا نظام چننے کا اختیار حاصل ہے۔
عابد سردار، اسلام آباد، پاکستان
مسلمان ممالک اور خصوصاً پاکستان میں یہ عام ہے کہ ہم مذہب کے نام پر ثقافتی جبر کا شکار ہوتے ہیں۔ ہماری روایات اور رسم و رواج ہماری مذہبی اقدار سے بالکل مختلف ہیں لیکن ہمارا معشرہ اور لوگ ان کو ایک سمجھ لیتے ہیں۔ ہمیں اپنے لوگوں کو تعلیم دے کر اکیسویں صدی کی سطح تک لانا ہوگا۔ ورنہ ہم یونہی پس ماندہ رہیں گے۔
خرم شہزاد، فرینکفرٹ، جرمنی
مصطفیٰ کمال پاشا نے خلافت کا خاتمہ کرکے جس نظریہ کی بنیاد رکھی وہ نظریہ اسلام سے متصادم نظر آتا ہے۔ وقت نے بھی یہ ثابت کیا کہ خلافت کے خاتمے نے مسلمانوں کو کمزور کیا ہے اور اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے آج مسلمان دنیا ابتری کا شکار ہے۔ ایک قیادت نہ ہونے کی وجہ سے سب نے اپنا اپنا قبلہ الگ کر لیا اور مسلمان بکھر کر رہ گئے۔ آج مسلمانوں کو ایک خلافت کی اشد ضرورت ہے اور تاکہ ایک فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ یہ ٹھیک ہے کہ جدید علوم حاصل کرنا اور ترقی کرنا ٹھیک ہے لیکن مذہب کو تمام چیزوں پر فوقیت حاصل ہے۔
پرویز خان، کراچی پاکستان
مصطفیٰ کمال پاشا کی پالیسیاں مسلمان ممالک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتیں کیونکہ یہ قرآن اور سنت کے منافی ہیں۔
کمال مصطفیٰ پاشا ترکی یا اسلامی دنیا کے رہنما نہیں تھے بلکہ وہ اسلامی اتحاد کو توڑنے کیلئے مغربی ممالک کے پٹھو تھے۔
احمد نواز نقوی، کراچی، پاکستان
یہ پاکستان کیلئے سو فیصد مفید ثابت ہو سکتی ہیں اور مختلف فرقوں کے درمیان تصادم اور فسادات کا خاتمہ کر سکتی ہیں۔
قیصر شہباز، جرمنی
ترکی میں وہ اصلاحات ہو رہی ہیں جن سے وہ یورپین یونین میں شامل ہو سکے۔ عورتوں کے حجاب پہننے پر پابندی بنیادی اسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے لیکن اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ یورپی روایت کے مطابق ہے۔
عبداللہ احمد، ڈلاس، امریکہ
ہم میں کوئی اختلافات نہیں ہونے چاہئیں۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔
سید خالد حسین جعفری، حیدرآباد، پاکستان
آج کل کے عالمی حالات میں مصطفیٰ کمال پاشا کا نظریہ کارگر نہیں ہوسکتا کیونکہ اس نظریئے میں مذہب سے دوری ہے۔ ترکی اسلامی دنیا سے بہت دور ہے لیکن خلافت مفید ثابت ہوگی۔
گل حیدر، اٹک، پاکستان
اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو تمام دنیا کے انسانوں کو آزادی دیتا ہے اور اپنا عقیدہ کسی دوسرے پر ٹھونسنے کی ممانعت کرتا ہے لہٰذا مرکزی قیادت کی کوئی ضرورت نہیں۔