گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں فرقہ وارانہ نوعیت کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ مولانا اعظم طارق کی اسلام آباد میں ایک حملے میں ہلاکت، حال ہی میں کوئٹہ میں امام بارگاہ پر حملہ یا کراچی میں ڈاکٹروں پر حملے جیسے واقعات کو روکنے کے لئے حکومتِ پاکستان نے فرقہ وارانہ تنظیموں پر پابندی عائد کررکھی ہے۔
کیا یہ پابندی کارآمد ثابت ہورہی ہے؟ ان واقعات پر آپ کا ردعمل کیا ہے؟ کیا آپ کا کوئی دوست یا رشتہ دار ایسے واقعات سے متاثر ہوا ہے؟ فرقہ واریت کو روکنے کے لئے پاکستانی عوام کو کیا کرنا چاہئے؟
--------------یہ فورم اب بندہوچکا ہے، قارئین کی آراء نیچے درج ہیں------------------------
فرحان خان
پاکستان اور مسلمانوں کو ایک مخلص قیادت کی ضرورت ہے۔ جس دن ہمیں مخلص قیادت مل جائے گی، ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ حکومتِ وقت کے پاس اتنی طاقت ضرور ہوتی ہے کہ جو چاہے کروائے اور جو چاہے رکوادے۔
محمد خان، امریکہ
دینی جماعتوں کے ہنماؤں سے میرا سوال ہے کہ کیا یک دوسرے کو قتل کرنا نیک کام ہے؟
نعیم اکرم، پاکستان
مجھے عوام کی آراء سے تعصب اور ایک دوسرے سے دشمنی کی بو آرہی ہے۔ اللہ نہ کرے یہ بو کوئی خطرناک شکل اختیار کرلے۔ یہ کھلے وقت سے سوچنے کا وقت ہے نہ کہ ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے کا۔
ندیم خان، کینیڈا
کیا ہم حقیقی زندگی میں بھی اتنے ہی مذہبی ہیں جتنا کہ ہم اس فورم پر ہوتے ہیں؟
طارق علی شاہ، انگلینڈ
اصل میں پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام ہی اس کا مقدر ہے۔ اگر اسلام کا عادلانہ نظام اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق نافذ کردیا جائے تو فرقہ واریت ختم ہوجائے گی کیونکہ اس کونسل میں تمام فرقے شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی عالمی سازش کو سمجھنا ہوگا۔
ایم آئی طاہر، ہالینڈ
اگر ملک میں صرف کتاب و سنت کا نفاذ کر دیا جائے تو فرقہ واریت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو سکتا ہے۔
کاشف راجہ، لاہور
فرقہ واریت ہمارے ملک کے لئے انتہائی خطرناک ہے اس لئے پہلے حکومت کو سب سے زیادہ مطلوبہ دہشت گردوں کو گرفتار کرکے سب کو ہلاک کر دینا چاہئیے۔
کاشف امین خان، مظفر گڑھ
دہشت گردی کو مکمل طور پر کچلا جا سکتا ہے لیکن حکومت کو اس کی بنیادی وجوہات سمجھنی چاہئیں اور ان بنیادی وجوہات کے خاتمے سے دہشت گردی بھی بڑی حد تک ختم ہو جائے گی۔
صغیر ایم اے، فرانس
آج کل کی فرقہ پرستی کے پیچھے ایجنسیز کا ہاتھ ہے۔
نعمان احمد، راولپنڈی کینٹ
فرقہ واریت کا مکمل خاتمہ ناممکن ہے۔ شیعہ سنی لڑائی کئی سو سال سے ہو رہی ہے مگر اس کی شدت پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس کےلئے ضروری ہے کہ دیہی علاقوں میں تعلیم عام اور سستی کی جائے اور لوگوں میں تحمل اور برداشت کے جذبے کو ابھارا جائے۔ ساتھ ساتھ ان حکومتی ایجنسیوں کو سختی سے روکا جائے جو فرقہ پرست تنظیموں کو اپنے مقاصد کےلئے استعمال کرتی ہیں۔
شکیل اعوان، کراچی
دراصل لوگ حضور کے آخری خطبے پر غور نہیں کرتے اور خود یہ مذہبی جماعتوں کے لوگ کس اسلام پر کاربند ہیں۔ کہاں لکھا ہے کہ مخالف فرقے کے لوگوں کو قتل کر دیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ کو ضرورت ہی نہیں تھی کہ ایک مخصوص فرقے کے علاوہ کسی کو پیدا کرتا۔ یہ مذہب کو بدنام کرنے والے لوگ ہیں۔
جانم خانم، پشاور
یہ نہیں ہونا چاہئے۔
سلیم کھٹانہ، اسلام آباد
یہ قتل منصوبہ بناکر کیا گیا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ کسی اور کو نہیں معلوم تھا کہ گاڑی میں کون تھا، جس کا یہ فیصلہ تھا کہ نمازِ جنازہ پالیمنٹ کے سامنے ادا کی جائے گی۔ اسے معلوم تھا کہ ہجوم پورے شہر سے گزرے گا اور اپنا غصہ شہر پر ہی اتارے گا۔
عمران یوسف، منڈی بہاؤالدین
اس طرح کے بحران بے روزگاری اور جہالت سے جنم لیتے ہیں۔ حکومت کو اپنے عوام کو تعلیم اور روزگار مہیا کرنے چاہئیں۔
فہیم یونس
آج سے چھبیس سال پہلے جب ہم احمدیوں کو کافر قرار دے رہے تھے تو اندازہ نہ تھا کہ یہی تیر کل ہمارے اپنے ہی سینے میں آکر لگے گا۔ نفرتوں کے یہ بیج جڑ سے اکھاڑنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کریں۔ اسی میں ہمارے مستقبل کا تحفظ ہے۔
علی کاظمی، کینیڈا
اعظم طارق نے بی بی سی پر اپنے ایک انٹرویو میں واضح طور پر شیعہ مسلمانوں کو کافر قرار دیا تھا اور ان کی جماعت نے سپاہِ صحابہ پر ایک دستاویزی فلم کو روکنے کےلئے بی بی سی کے اسلام آباد کے دفتر پر حملہ بھی کیا تھا۔ انہوں نے کھل کر اپنے ارکان کو شیعہ مسلمانوں کو مارنے کا حکم دیا۔ اس جماعت کو دراصل سی آئی اے اور جنرل ضیاءالحق نے ایران کے انقلاب کو روکنے کےلئے بنایا تھا۔
ناصر مخدومی، گجرانوالہ
فرقہ وارانہ تشدد کے ذمہ دار صرف ملا ہیں۔ وہ ایک محروم طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے لوگوں کو خوش نہیں دیکھ سکتے۔ ان کا اثرو رسوخ صرف ان علاقوں تک محدود ہے جہاں تعلیم کی کمی ہے۔
علی، ٹورنٹو، کینیڈا
غازی بابا اور عدنان یونس صاحب کے بتائے ہوئے حل تعصب پر مبنی ہیں۔ پہلے یہ صاحبان حضرت علی کی دشمنی کو صحابہ کی گستاخی شمار کرنے کے بارے میں کچھ کہیں۔ یا پھر اہل بیت، جن کی شان میں اتنی بار اعظم طارق نے گستاخی کی، اس کے جواب میں بھی کوئی بل پیش کرنے کی بات کریں۔ پہلے اہل بیت کی عزت کریں پھر صحابہ کی عزت بھی ضرور کروائیں اور اس بارے میں بھی اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کریں۔
محمد توصیف، ملتان
میرا خیال ہے کہ یہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا کام ہے۔ جو عراق میں فوج بھیجنے کی بات کرتے ہیں انہیں احساس ہونا چاہئے کہ ہمارے اپنے لوگ یہاں محفوظ نہیں ہیں۔
لیاقت علی، امریکہ
اگرچہ یہ عملی طور ممکن نہیں لیکن اسلام کو سیاست سے علیحدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر فرقے کے ملا تعلیم سے بے بہرہ ہیں۔ تشدد کی بنیاد ان مدارس میں ہے جہاں نفرت اور قتل کی تعلیم دی جاتی ہے۔
ابو محسن میاں، سرگودھا
ہمیں جماعت اسلامی کو ووٹ دینا چاہئے کیونکہ یہ واحد مذہبی اور سیاسی جماعت ہے جس کی رکنیت تمام مسلک کے لوگوں کے لئے کھلی ہے خواہ وہ سنی ہوں، شیعہ ہوں، دیوبندی یا بریلوی ہوں یا اہل حدیث۔
علی حسن، لاس اینجلس، امریکہ
پاکستانیوں کو بحیثیتِ قوم اسلام اور اس کے تصور پہ ازسر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم تاریخ پڑھیں تو کوئی بھی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ کسی بھی رسول کے ساتھیوں کے کردار تنقید سے بالا تر نہیں رہے۔ ہمیں اہلِ بیت کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے اور مذہب کو ہم آہنگی کے لئے استعمال کرنا چاہئے نہ کہ نفرت کیلئے۔ تمام مدارس کی تعمیرِ نو کی ضرورت ہے تاکہ وہاں سے نفرت کی تعلیم نہ دی جا سکے۔ ہمیں بحیثیت قوم بہت بڑے مسائل سے نمٹنا ہے جیسے کہ ناخواندگی، غربت اور کارو کاری۔
فیصل یعقوب ملک، آزاد کشمیر
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کرنے والے کوئی اور نہیں یہ اندر رہنے والے لوگ ہی ہیں۔
حسن عسکری، پاکستان
پوری دنیا میں مسلمان اپنے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں مگر پاکستان میں پچھلے پندرہ سال سے کچھ ملاؤں نے ’کافر کافر‘ اور ’مارو مارو‘ کے نعرے لگانے شروع کر دیئے اور معاشرے کو دورِ جاہلیت میں دھکیل دیا گیا۔ اب وہ ملا خود اسی گڑھے کی آگ میں جل رہے ہیں مگر ماؤں کی گود اجڑنے کا حساب کس کے سر ہے؟ ان حکومتوں کے سر جنہوں نے ان لوگوں کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع دیا۔ اب پتہ نہیں کتنے سال اس کانٹوں کی فصل کو کاٹنے میں صرف ہوں گے اور وہ بھی اگر حکومت نے کبھی سختی کی تو تب۔
ڈاکٹر خورشید عالم ایاز، ڈنمارک
آخر ہم مدارس میں کس طرح کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اور پھر ہم مغربی ممالک کے دباؤ میں آکر کیوں انہیں بند کریں۔
عظمیٰ خان
کیا یزید اور حسین کو ایک جیسی عزت دی جا سکتی ہے؟ بس اسی طرح فرقہ واریت ختم نہیں ہو سکتی۔
شاہد علی، امریکہ
غازی بابا قیصر مجید نے حق نواز جھنگوی کے حل کی بات کی ہے۔ یہ سپاہِ صحابہ کا دعویٰ ہے تو انہیں عدالت میں جانا اور اسے ثابت کرنا چاہئے۔ شیعہ یا حکومت کیوں عدالت جائیں؟ علاوہ ازیں یہ مسئلہ باآسانی حل کیا جاسکتا ہے اگر حکومت ان افراد سے نمٹنے کا فیصلہ کر لے جو قانون ہاتھ میں لیتے ہیں۔
غلام حیدر، لندن، برطانیہ
شیعہ سنی تنازعے کے پیچھے تین عوامل کارفرما ہیں۔ ایک تو دونوں اطراف کے انتہاپسند عناصر ۔ دوسرا غیرملکی ایجنسیاں ہیں مثلاً را، سی آئی اے، موساد وغیرہ اور تیسرا ہماری اپنی ایجنسیاں جیسے آئی ایس آئی وغیرہ۔ یہ آئی ایس آئی کا کام ہے جو پرویز مشرف کے صدارتی اقتدار کو طول دینے کےلئے موجودہ صورتِ حال سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔
ثناء اللہ خان، اوکاڑہ
اعظم طارق کا قتل صرف آئی ایس آئی جیسی ایجنسیوں کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔ پھر ایران کا رویہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے اور مداخلت پر پابندی لگانی چاہئے۔
گل سانگا، مینگورہ
یہ حکومت کا کام ہے کہ ملک میں فرقہ واریت پر پابندی لگائے۔ اگر حکومت ایک وزیر کی حفاظت کر سکتی ہے تو ایک بڑے لیڈر کی حفاظت کیوں نہیں کر سکتی۔
ڈاکٹر افضال ملک، راولپنڈی
فرقہ واریت سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ کسی بھی مسلک کے بارے میں رائے دینے پر پابندی ہونی چاہئے۔اگر یہ اٹل ہے کہ تہّتر فرقوں میں امت بٹ جائے گی اور اس پر ہمارا ایمان ہے تو کیوں کسی کو اچھا یا برا کہا جائے یا اس پر بات بھی کی جائے۔ میرے خیال میں دل آزاری پر سخت سزائیں ہونی چاہئیں اور اس کے علاوہ سیاست اور دین کو الگ رکھ کر ہم ایک اچھا معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔
شہزاد جہانگیر خان، ڈیرہ غازی خان
میرے خیال میں ایک اسلامی ملک میں اسلامی اداروں کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر آپ ماضی کو دیکھیں تو حضرت محمد کے زمانے میں کوئی مدرسہ یا اسلامی ادارے نہیں ہوتے تھے۔ ایسے تمام ادارے بند کردینے چاہئیں اور اسلامی ادارے صرف سرکاری ہونے چاہئیں تاکہ انہیں جنگ اور نفرت سے پاک رکھا جاسکے۔
اسد حسن، اسلام آباد
پاکستان میں فرقہ واریت سے نجات حاصل کرنے کےلئے حکومت کو تمام متنازعہ مذہبی مواد اپنے قبضے میں لے لینا چاہئے۔ پاکستان کا ماحول پرامن بنانا ناممکن نہیں لیکن اس کی لئے سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کی مخلصانہ کوششیں درکار ہیں۔ اگر پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے تو یہ ثابت کرنے کے لئے اسے امن قائم کرنا ہوگا۔
غازی بابا قیصر مجید، گجرانوالہ
جب تک حکومتِ وقت دونوں فرقوں کو ایک پلیٹ فارم پر بٹھا کر کوئی ضابطۂِاخلاق مرتب نہیں کرتی اور اس پر سختی سے عمل درآمد نہیں کرواتی، تب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ دوسرا حل مولانا حق نواز جھنگوی کا پیش کردہ ہے اور کافی مقبول ہے۔ وہ یہ ہے کہ حکومت یا شیعہ سپریم کورٹ میں رِٹ دائر کریں جس کا جواب سپاہِ صحابہ کے رہنما عدالت میں دیں۔ اگر وہ شیعہ کو کافر ثابت کر دیں تو انہیں بھی احمدیوں کی طرح کافر قرار دے دیا جائے ورنہ قتل و غارت گری کے یہ سلسلے نہ تو قانون سازی سے بند ہوں گے اور نہ گرفتاریوں سے۔
عدنان یونس، کھاریاں
اگر ملک میں پرویز مشرف کے خلاف بات کرنے پر پابندی لگ سکتی ہے تو صحابہ کو گالیاں دینے پر کیوں کچھ نہیں کیا جاتا؟ حکومت جان بوجھ کر مسئلہ حل نہیں کرتی۔ دونوں کا موقف سنا جائے اور صحابہ جن کی تمام مسلمان عزت کرتے ہیں ان کی ناموس کا بل پاس کیا جائے۔
نعیم اکرم، اختر کالونی
پہلے شیعہ حضرات کو مارا گیا اس کے بعد ان کی مخالف جماعت کے رہنما کو مارا گیا۔ یہ سب وہ کروا رہے ہیں جو ہمیشہ پاکستان کے مخالف رہے ہیں اور یہ کروا کر انہوں نے پاکستانیوں کو مروانے کا سو فیصد بندوبست کر لیا ہے۔ آج تک صرف وہ ہی کیوں مرتے ہیں جو امریکہ کے مخالف ہیں، وہ کیوں نہیں مرتے جو امریکہ کے ساتھ ہیں۔ اللہ ہمیں آنکھوں پر بندھی پٹی کھولنے کی ہمت دے۔ یہ جذبہ دے کہ ہم برائی کو برائی اور اچھائی کو اچھائی سمجھ سکیں اور دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے سے بہتر ہے کہ اللہ ہمیں موت دیدے۔
طاہر عزیز جنجوعہ، ٹورنٹو، کینیڈا
ہم پاکستانی مسلمان امریکہ، کینیڈا یا انگلینڈ وغیرہ میں غیر مسلمانوں کے ساتھ رہتے اور کام کرتے ہیں لیکن پاکستان میں ہم اپنے ہی بھائیوں کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ دنیا میں ایک سنہری اصول ہے کہ ’جیو اور جینے دو۔‘ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان ہلاکتوں سے پاکستان اور اسلام بدنام ہو رہے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم بغیر متحد ہوئے اسلام کو نہیں بچا سکتے۔
خان آفریدی، کراچی
تنظیموں پر پابندی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ اگر ایک تنظیم پر پابندی لگتی ہے تو وہ دوسرے نام سے آجاتی ہے۔ حکومت کو اس بنیاد کا خاتمہ کرنا چاہئے جس سے یہ ساری چیزیں جنم لیتی ہیں۔ حکومتیں ہی سب کو آپس میں لڑاتی ہیں۔ اگر حکومتیں یہ سب کچھ ترک کر دیں تو پاکستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
محمد آصف ملک، پاکستان
ہم اس مسئلے سے صرف لوگوں کو تعلیم دے کر ہی نمٹ سکتے ہیں۔
احمد نسیم شمسی، کراچی
میرا خیال ہے کہ ہر پاکستانی فرقہ وارانہ تشدد سے نفرت کرتا ہے لیکن حکومت اس پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ وہ عراق میں فوجیں بھیجنے کی بات کر رہی ہے لیکن اپنے لوگوں کو تحفظ نہیں فراہم کر سکتی۔ جب حکومت پارلیمانی ارکان کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی تو ایک عام پاکستانی کیسے محفوظ محسوس کر سکتا ہے۔ فرقہ وارانہ جماعتوں پر پابندی ناکافی ہے کیونکہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اسے روک سکنے کی اہلیت ہی نہیں ہے۔ ماضی میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے کئی واقعات ہو چکے ہیں لیکن کوئی تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں یا لوگوں کے سامنے نہیں لائی گئیں۔ اسے روکنے کیلئے لوگوں کو آپس میں محبت اور بھائی چارے کی فضاء قائم کرنی ہوگی تاکہ چند بزدل افراد اتنی بڑی اکثریت پر اپنی مرضی نہ چلا سکیں۔ اور حکومت کو لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔
محمد زیرک مومی، کراچی
فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے تمام فرقہ پرست جماعتوں پر پابندی لگائی جائے اور قوانین بنائے جائیں جن کے ذریعے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ نہ ہی جمعہ کی نماز میں اور نہ ہی مجالس میں کسی کے جذبات کی توہین کریں گے۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے۔ اس کے علاوہ غیر ضروری جلسے اور جلوسوں پر پابندی لگائی جائے اور صحابہ رسول اور اہل بیت کی شان میں گستاخی کرنے والے کے لئے سزا کا بل اسمبلی میں پاس کیا جائے۔
ارم ہاشمی، پاکستان
پاکستان سے فرقہ واریت کا خاتمہ ناممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ایسی حکومت قائم کی جائے جو عوام کو گروہوں میں تقسیم کرکے حکمرانی نہ کرے جیسا کہ انگریزوں کی پالیسی تھی۔ اس کے بعد عوام کی سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
عزیرالاسلام، اٹک
ملک میں فرقہ واریت اور شدت پسندی کے لئے ملاؤں کو سزا ملنی چاہئے۔
ابرار، بالٹی مور، امریکہ
میرے خیال میں ہمیں بڑے پیمانے پر تعلیم اور ترقی پسند تحریک کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہمارے عوام ملاؤں کے اثر سے آزاد ہوسکتے ہیں۔ فرقہ واریت کا خاتمہ بڑے پیمانے پر تعلیم کے فروغ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
محمد رضا، قطر
صرف جماعتوں پر پابندی کے ذریعے ہی فرقہ واریت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ہے۔ تمام فرقوں کو ایک دوسرے کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
زین العابدین، اٹک
مولانا اعظم طارق پر حملے میں حکومتی ایجنسیوں کا ہاتھ لگتا ہے کیونکہ جنرل مشرف کی حکومت پاکستان کو امریکہ کی کالونی بنانا چاہتی ہے۔