BBCUrdu.com
  •    تکنيکي مدد
 
پاکستان
انڈیا
آس پاس
کھیل
نیٹ سائنس
فن فنکار
ویڈیو، تصاویر
آپ کی آواز
قلم اور کالم
منظرنامہ
ریڈیو
پروگرام
فریکوئنسی
ہمارے پارٹنر
ہندی
فارسی
پشتو
عربی
بنگالی
انگریزی ۔ جنوبی ایشیا
دیگر زبانیں
 
وقتِ اشاعت: Wednesday, 29 October, 2003, 14:10 GMT 19:10 PST
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
سیکولر ترکی کے اسّی سال
 

 
 ترکی
ترکی
 

ترکی میں ایک سیکولر جمہوریت کے قیام کی اسّی ویں سالگرہ ترکی کے اندر اور باہر مختلف لوگوں کے لئے مختلف معانی رکھتی ہے۔

مکمل مغربی نقطہ نظر کی حامل اشرافیہ اسے آج تک لوگوں کی ان قوتوں پر فتح سے تعبیر کرتی ہے جنہیں وہ اسّی برس گزر جانے کے باوجود ’ملک کی رجعت پسند اسلامی قوتوں‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ سمجھنا دشوار نہیں ہے کہ مغربی طاقتیں بھی اس رائے سے کسی نہ کسی شکل میں اتفاق کرتی ہیں۔

لیکن اسلامی گروہوں کے لئے اس کا مطلب نہ صرف اس اسلامی اتحاد کا خاتمہ ہے جس کی علامت خلافتِ عثمانیہ کے حکمران تھے بلکہ ترکی معاشرے میں تشخص کے ایک بہت بڑے بحران کا آغاز ہے۔

ایک انٹلکچوئل اور کالم نگار کے طور پر مجھے لگتا ہے کہ یہ دوسرا نظریہ زیادہ درست ہے۔ یہاں میں اس کے سماجی، ثقافتی اور سیاسی عقیدوں، امیدوں، توقعات اور کوتاہیوں کی روشنی میں اپنے تجزیئے کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔

سب سے پہلے تو یہ جمہوری موڑ دراصل خلافتِ عثمانیہ کی جدت کی طرف سرگرمی کا نتیجہ ہے جس کا آغاز انیسویں صدی کی ’تنظیمیت تحریک‘ سے ہوا جس کا مطلب بحالی اور اصلاحات تھیں۔ کئی پہلوؤں سے خلافتِ عثمانیہ کو تنزلی سے بچانے کے لئے تنظیمیت تحریک ناگزیر تھی جس کے ذریعے دفاع، حکومت، معاشیات اور عدلیہ میں کئی جدید پروگراموں کے ذریعے اصلاحات متعارف کروائی گئیں۔

لیکن یہ تحریک برطانوی سلطنت کے زیر اثر خود ہی سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف مؤثر ہوتی گئی اور آخر میں جدید ترکی کا قیام ترکی کی مکمل مغربیت کے منصوبے میں ڈھل گیا۔ دوسرے لفظوں میں اس کے ذریعے ترکی کی سیکولر اشرافیہ نے ترک معاشرے کی اسلامی ثقافت، تشخص اور سمت کو بدل کر ترکوں پر ایک جعلی، انتخابی اور خیالی مغربی تشخص، ثقافت اور تہذیب کو مسلط کر دیا۔

اس کے نتیجے میں مغرب حامی اشرافیہ اور مسلمان ترک عوام کے درمیان ایک خطرناک اور نہ ختم ہونے والی کش مکش کی ابتد ہوئی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فلپ روبنز نے اس کش مکش کیلئے ’سیکولر ریاست اور مسلمان معاشرے‘ کے دلچسپ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ ’ترکی کی سیکولر اشرافیہ اور عام معاشرے کے تشخص ایک دوسرے کو اپنانے کے بجائے اپنا قبضہ بڑھانے کے لئے باہر کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں‘۔

سیکولر جمہوری تحریک نے ترکی کے اسلامی تہذیب کی رہنما قوت کے تصور کو ٹھکرا دیا اور بالآخر ترکی نے اسلامی اتحاد، ثقافت اور تہذیب کے اپنے تصورات، دعووں اور مقاصد سے منہ موڑ لیا۔ یوں اس نے ایک عالمی سیکولر اور سرمایہ دارانہ مغربی نظام کے خلاف اپنی پانچ سو سالہ جدوجہد کے تاریخی تجربے سے اپنا ناطہ توڑ لیا اور خود کو ایک اکھڑی ہوئی تہذیب میں بدل ڈالا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسلامی دنیا ایک طاقتور اور فیصلہ کن سیاسی، ثقافتی، اقتصادی اور تہذیبی قیادت سے محروم ہے۔

مغربی قوتیں بھی سیکولر اور مغربی ترکی جمہوریہ کے قیام کی خوشی منائیں گی۔ وہ یہ خوشی اس لئے منائیں گی کہ ان کا خیال ہے کہ سیکولر ترکی نے اسلامی دنیا کو تصور کی سطح پر ایک متبادل غیر مغربی اور درحقیقت مشرقِ وسطیٰ میں ایک اسلامی قوت نہ بن سکنے میں سنگِ میل کا کردار ادا کیا ہے۔

اگرچہ یہ سچ ہے کہ اس جنگِ آزادی نے جس کے نتیجے میں مغرب حامی ترک جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا، ترکی کو نو آبادی بننے سے بچالیا لیکن اس مغرب حامی ترکی نے خود اپنی نوآبادی کا ایک تاریخی عمل شروع کردیا۔ دوسرے لفظوں میں ترکوں نے ایک قومی ریاست اور ملک تو بنا لئے لیکن اسلامی تشخص، اتحاد او تہذیب کھو دیئے۔ پھر انہوں نے خلافتِ عثمانیہ کی اسلامی تہذیب، تشخص، تاریخ، ثقافت، قوت اور مقاصد بھی کھو دیئے: ایسے مقاصد جنہیں اگر کبھی خطے میں مغربیت کی انتہا پر پہنچ چکی طاقتوں کی حدود سے باہر کسی نئی تہذیب کی ضرورت پڑی تو پھر سے زندہ کیا جاسکتا ہے ۔

اب جبکہ امریکہ نے بلقان، مرکزی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں جو خلافتِ عثمانیہ کے حصے رہے ہیں، حملوں اور قبضوں کے بعد ایک عالمی طاقت کے طور پر اپنی قانونی حیثیت گنوا دی ہے، ترکی کو اسلامی دنیا کو متحد کرنے کےلئے خلافتِ عثمانیہ کے مقاصد فوری طور پر از سرِّ نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے وہ نئے سیاسی، ثقافتی، اقتصادی اور فوجی اتحاد بنائے۔

جب ہم اس غم زدہ سیاسی کھیل کو دیکھتے ہیں جو امریکہ اور یورپی یونین ترکی کو اپنے ساتھ رکھنے کےلئے کھیلتے رہتے ہیں تو یہ بالکل واضح نظر آتا ہے کہ ترکی کےلئے اپنے ماضی قریب کے سیکولر تشخص او مغرب حامی تجربے کی نفی کرنا اور ایران اور مصر کے ساتھ مل کر کسی نئے اسلامی بلاک کے قیام کی طرف قدم اٹھانا بہت زیادہ دشوار ہوگا اور یہ شاید مغربی طاقتوں کیلئے حیران کن تشویش کا باعث بن جائے۔ لیکن یہ ایک ایسا امکان ہے جو ترکی کی فوجی اور سول اشرافیہ کے حلقوں میں مغربی دوستوں اور حلیفوں کے نادانشمندانہ دباؤ کی وجہ سے روز بروز ایک مضبوط دلیل کی صورت اختیار کر رہا ہے۔

نوٹ: یوسف کپلان ترکی کے اخبار ’یینیسفک، کے سابق ایڈیٹر ان چیف اور اب اس کے کالم نگار اور استنبول میں سینئر لیکچرار ہیں۔ ان کا شمار اس وقت ترکی میں صفِ اوّل کے جوان مفکروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے انگریزی زبان میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے چھپنے والی ’عالمی سینما کی تاریخ‘ میں شامل ایڈیٹر کے طور پر کام کیا ہے اور ترکی میں سیاست، جدیدیت، میڈیا اور زبان پر کئی تصانیف لکھی ہیں۔

 
 
اسی بارے میں
 
 
تازہ ترین خبریں
 
 
یہ صفحہ دوست کو ای میل کیجیئے پرِنٹ کریں
 
 

واپس اوپر
Copyright BBC
نیٹ سائنس کھیل آس پاس انڈیاپاکستان صفحہِ اول
 
منظرنامہ قلم اور کالم آپ کی آواز ویڈیو، تصاویر
 
BBC Languages >> | BBC World Service >> | BBC Weather >> | BBC Sport >> | BBC News >>  
پرائیویسی ہمارے بارے میں ہمیں لکھیئے تکنیکی مدد