|
پاکستان کی خواتین مصور | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بھارت اور پاکستان کے آزادی کے دن میں صرف ایک دن کا فرق ہے ۔ جبکہ دونوں ملکوں میں فنون لطیفہ کے ارتقاء کا آدھی صدی سے زیادہ طویل سفر سیاسی اور سماجی حالات میں فرق کی وجہ سے دو مختلف راستوں پر رواں نظر آتا ہے ۔ ایک ہی وقت شروع ہونے والے اس سفر میں پاکستان کی خواتین مصور کئی مراحل سے گزری ہیں۔ اس مشکل سفر کو معروف مصورہ سلیمہ ہاشمی نے اپنی کتاب Unvailing the Visible کا موضوع بنایا ہے۔ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد بھارت میں جہاں مسلسل جمہوریت اور فنون لطیفہ کے لئے موافق حالات نے فن کے ارتقاء میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی وہاں پاکستان میں فن کے ارتقاء میں دیگر مشکلات کے ساتھ ساتھ سیاسی اتار چڑھاؤ اور مذہبی انتہا پسندی نے کئی رکاوٹیں کھڑی کیں۔ ان تمام مشکلات کے باوجود خواتین نے مصوری کو پاکستان میں اظہار کے ایک مضبوط ذریعے کے طور پر منوانے میں ایک اہم کردار ادا کیاہے۔
سلیمہ ہاشمی پاکستان میں فنون لطیفہ کے مختلف ارتقائی ادوار کا ذکر اپنی کتاب میں کچھ یوں کرتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کے ابتدائی دنوں میں فنون لطیفہ اور دستکاری میں سرکاری سطح پر کچھ زیادہ فرق نہیں سمجھا جاتا تھا۔ 1940 میں پنجاب یونیورسٹی کا فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ صرف خواتین کے لئے ہی مخصوص تھا۔ اس شعبہ کو صرف خواتین کے لئے ہی مخصوص کیا جانا نہ صرف خواتین بلکہ فنون لطیفہ کے ساتھ بھی ایک امتیازی سلوک تھا۔ 1975 میں شاکر علی اور اے آر چغتائی کے انتقال اور بھٹو کے دور کے آغاز سے خواتین مصوروں کے تخلیقی اظہار کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اس دور میں لوک روایات، موسیقی اور ادب نے خوب ترقی کی اور خاتون فنکاروں نے بھی ان موضوعات کو اپنے کام میں اپنایا۔ 1977 میں پاکستان میں تیسرا مارشل لاء لگا۔ بھٹو دور کے مقابلے میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں ذرائع ابلاغ میں خواتین کے کردار میں بڑی تبدیلی نظر آتی ہے۔
اس دور میں الیکٹرونک میڈیا بری طرح سینسر کی زد میں آیا۔ اس کے علاوہ خواتین کے لباس، زبان اور برتاؤ کا بھی ایک ضابطہ اخلاق بنایا گیا۔ فائن آرٹس میں اگرچہ انسانی شبیہ والی تصاویر اور مجسوں پر پابندی نہیں تھی لیکن سیاسی شخصیات کی تصاویر اور مجسموں کے علاوہ کام کو سرکاری سطح پر ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا تھا۔ ان سیاسی شخصیات میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ خود صدر جنرل ضیاء الحق بھی شامل رہے۔ اس دور میں خطاطی اور قدرتی مناظر کو آرٹ کے لئے ایک بہتر موضوع اس لئے سمجھا گیا کہ اس طرح نہ صرف قومی تشخص ابھر کر سامنے آتا تھا بلکہ اسلامی پہچان کو بھی اجاگر کرنے میں مدد ملتی تھی۔ یہ پہچان افغان جنگ کے تناظر میں حکومت کی نام نہاد ’فری ورلڈ‘ کا سب سے قریبی حلیف جتانے میں بھی مدد کرتی تھی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کسی ایک خاتون مصور نے بھی حکومت کی اس نئی آرٹ پالیسی کے تحت خطاطی کو نہیں اپنایا۔ جہاں ایک طرف خواتین 1977-1981- 1982 اور 1985 کی قومی آرٹ کی نمائشوں میں انعامات جیت رہیں تھیں وہاں حکومتی سطح پر ان کے خلاف امتیازی قوانین بھی متعارف کرائے جارہے تھے۔
1977 کے فوجی قبضے کے بعد نہ صرف خاتون مصوروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو بلکہ انکا کام بھی اپنے مرد ساتھیوں سے مختلف رہا۔ مہر افروز، ناہید رضا اور قدسیہ نثار اس مشکل دور میں خاتون مصوروں میں سے چند اہم نام ہیں۔ یہ ایک ایسا دور تھا جب ملک میں آزادی اظہار کے بنیادی حق کو پامال کیا گیا۔ 1981 کی آرٹ کی قومی نمائش اس حوالے سے اہم ہے جس سے جمیل نقش، جمیلہ مسعود اور سلیمہ ہاشمی کا کام خارج کردیا گیاتھا۔ جمیل نقش پر اخلاقیات سے گراوٹ کا الزام لگا کر جبکہ دونوں خاتون مصوروں کو اپنی تصاویر میں سیاسی موضوعات اپنانے کی پاداش میں یہ سزا ملی۔ سلیمہ ہاشمی مشہور شاعر فیض احمد فیض کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ کی تعلیمی ماہر کی حیثیت سے بھی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔
پاکستان کی خاتون مصوروں کی زندگی اور کام پر کتاب لکھنے کی وجوہات سلیمہ کچھ یوں بتاتی ہیں۔ ’ضیاء الحق کے زمانے میں جب پاکستان میں انسانی حقوق پامال کئے جارہے تھے اور خاص طور پر عورتیں اسکا نشانہ بن رہی تھیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ میں دیکھ رہی تھی کہ عورتوں کا فن اس کے باوجود پختہ ہوتا جارہا تھا۔ مجھے حیرت بھی ہوئی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ خواتین برے حالات میں بھی اچھا کام کررہی ہیں؟ لٰہزا میں نے سوچا کہ یہ ایک کہانی ہے اور یقینًا کہی جانی چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ فن میں ایک عورت کا مشاہدہ مرد سے قطعی مختلف ہوتا ہے ۔ اور یہ فرق خاتون مصوروں کے کام میں نظر بھی آتا ہے۔ ری شم سید آج کے دور کی مصورہ ہیں۔ مشاہدے میں اس تفریق کے بارے میں انکا کہنا ہے۔ ’ایک عورت کا زندگی کا تجربہ ظاہر ہے ایک مرد کے تجربے سے بلکل مختلف ہوتا ہے۔ یہ فرق ہماری سوسائٹی میں اور بھی زیادہ نمایاں ہے۔ کیونکہ فن زندگی سے الگ کوئی چیز نہیں لہزا زندگی کا یہ تجربہ فن اور مشاہدے دونوں میں نظر آتا۔‘ نازش عطاللہ ایک ایسی مصورہ ہیں جن کے کام میں 1977 میں لگنے والے مارشل لاء میں خواتین کے حقوق کی پامالی کا ردعمل صاف نظر آتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں خاتون مصوروں کے حالات کا موازنہ نازش کچھ یوں کرتی ہیں۔
’بھارت میں مسلسل جمہوریت رہی جبکہ پاکستان میں فوجی حکومتیں آتی رہی ہیں۔ خاص طور پر ضیاء الحق کے زمانے میں جب حدود آرڈیننس جیسے قوانین اس ملک میں رائج کیے گئے جس کے ردعمل میں عورتوں کے لئے اپنے آپ میں سیاسی آگہی پیدا کرنا ضروری ہوگیا۔‘ روبی چشتی ایک ایسی فنکارہ ہے جس کے کام میں پاکستان کی خاتون مصوروں کے ارتقائی سفر کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ اُن کی ایک انسٹلیشن میں ایسی عورتوں کا ایک گروپ ہے جنہیں اس نے اُن کپڑوں، چادروں اور رضائیوں سے تخلیق کیا جن کے ساتھ اس کا تمام بچپن گزرا۔ تخلیقی عمل میں سیاست کے اثرات پر روبی چشتی کا کہنا ہے۔ ’فن کار ہی کیا ہر کسی کااعتماد ختم ہوجاتا ہے جب ایک منتخب حکومت کو ہٹادیا جائے اور اس کے اثرات سوسائٹی پر سالوں نہیں بلکہ صدیوں تک رہتے ہیں۔ لیکن ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ جس چیز کو جتنا دبایا جاتا ہے وہ اتنا ہے ابھر کر سامنے آتی ہے۔
1983 کی الحمرا آرٹس سینٹر میں منعقد ہونے والی قومی نمائش میں پندرہ خاتون مصوروں نے ’وومن آرٹسٹ مینیفیسٹو’ پر دستخط کئے۔ یہ منشور سلیمہ ہاشمی، لالہ رخ اور آئی اے رحمان نے تیار کیا تھا۔ اس مینیفیسٹو کے اثرات آج کی خاتون مصوروں کے کام میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں فن کے ارتقا کے راستے جدا ہونے کے باوجود پاکستان اور بھارت کی خاتون مصوروں کے کام میں اپنے عہد کے سیاسی اور سماجی حالات کی عکاسی صاف نظر آتی ہے۔ اگر بھارت میں مسلسل جمہوریت نے فنون لطیفہ کو چار چاند لگائے تو وہاں پاکستان میں مختلف سماجی، سیاسی اورمذہبی انتہا پسندی کی رکاوٹوں نے خاتون مصوروں کو موضوع اور اظہار کے اچھوتے راستوں سے روشناس کیا۔ نوٹ: اس فیچر میں شائع تصویروں کے لئے ہم محترمہ سلیمہ ہاشمی کے ممنون ہیں۔ |
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||