’نصرت کب کچھ نیا کر دیں گے کوئی نہیں جانتا تھا‘

،تصویر کا ذریعہrahat faeth ali khan

پاکستان کے معروف گلوکار نصرت فتح علی خان کی آواز آج بھی کانوں میں پڑتی ہیں تو لوگ ان کی گائیکی میں کھو جاتے ہیں۔

ان کی آواز کے اس انوکھے پن اور روحانیت کو چاہ کر بھی بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔

نصرت فتح علی کی آواز، ان کا انداز، ان کا ہاتھوں کو ہلانا، چہرے پر سنجیدگی کے تاثرات، موسیقی کا عمدہ استعمال، الفاظ کی شاندار روانگی یہ سب کچھ ہمیں کسی دوسری دنیا میں لے جانے پر مجبور کرتا ہے۔

نصرت فتح علی خان بچپن میں گائیکی کی نہیں بلکہ طبلے کی مشق کیا کرتے تھے۔

نصرت فتح علی خان کی چار بہنیں اور دو چھوٹے بھائی تھے۔

ان کے والد استاد فتح علی خان خود بھی مشہور قوال تھے۔ استاد والد نے نصرت کو پہلے طبلہ سکھانا شروع کیا لیکن بعد میں نصرت نے گانا کو ہی اپنا مقام بنا لیا۔

سنہ 1985 میں لندن میں ورلڈ آف میوزیک آرٹ اور رقص فیسٹول منعقد ہوا۔

نصرت نے پیٹرگیبریل کے ساتھ اپنا میوزیک دنیا کے سامنے رکھا، اس کے بعد تو معجزہ ہو گیا، جس نے بھی انھیں سنا وہ ان کا دیوانہ بن گیا۔

ایسا نرالا انداز، دنیا بھر میں جو لوگ پنجابی اردو اور قوالی بھی نہیں سمجھ پاتے تھے، وہ بھی ان کی آواز اور انداز کے دیوانے ہو گئے۔

سنہ 1998 میں جب پیٹر گیبریل ہالی وڈ فلم ’لاسٹ پٹیشن آف کرائسٹ‘ کا صوتی ٹریکس بنا رہے تھے تو انھوں نے اس منظر کے لیے نصرت کے الاپ استعمال کیا۔

پیٹر گیبریل نے انھیں برطانیہ کے سٹوڈیو میں ریہرسل کے لیے بلایا لیکن جب نصرت نے ریہرسل شروع کی تو انھوں نے اسے روک دیا اور کہا کہ اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔

پیٹر گیبریل کہتے ہیں: ’ان کے ساتھ کام کرنا شاندار رہا، وہ ہمیشہ سے ہی انتہائی تخلیقی ہیں، وہ کب کیا کچھ نیا کر دیں گے کوئی نہیں جانتا، ان کے پاس ٹائمنگ ہے، احساس ہے اور میوزیک کی بہترین تفہیم ہے۔‘

اگرچہ نصرت کو دنیا نے دیر سے پہچانا لیکن جب پہچانا تو دنیا بھر میں ان کے دیوانوں کی کمی بھی نہیں رہی، جن جن ممالک میں راک کنسرٹ ہوا نصرت فتح علی خان نے اپنی قوالی کا رنگ جمایا، لوگ جھوم اٹھے۔

نصرت خود کہتے تھے: ’میں نے نئی نسل کو دیکھ کر ہی اپنی گائیکی میں مغربی ساز آلات کا استعمال کیا۔ جو لوگ ویسٹرن میوزیک کو ترجیح دیتے تھے انھیں اگر کلاسیکی سنایا جاتا تو وہ پسند نہیں کرتے تو کلاسیکی گانے میں مغربی ساز آلات کا استعمال کیا۔‘

پاکستان کے قوال ابو محمد قوال کہتے ہیں: ’قوالی میں نصرت فتح علی خان کا کوئی ثانی نہیں ہے لیکن دنیا بھر میں ان کی شناخت اور ان کی مقبولیت کی وجہ مغربی موسیقی کے ساتھ ان کا میل ملاپ رہا۔‘

ابو محمد بتاتے ہیں کہ ایک اچھے قوال کے لیے ٹھمری، دادرا اور کلاسیکی کی تعلیم ہونا بہت ضروری ہے۔ نصرت بہترین قوال تھے۔

نصرت کے جادو نے سرحدیں پار کیں اور بھارت میں بھی ان کے گیت اور قوالياں سر چڑھ کر بولنے لگیں۔

’میرا پیا گھر آیا‘، ’پیا رے پیا رے‘، ’سانو ایک پل چین‘، ’تیرے بن ‘، ’محبت نہیں کرنا‘، ’سایہ بھی جب ساتھ چھوڑ جائے‘، ’سانسوں کی مالا پہ‘ اور نہ جانے ایسے کتنے گیت اور قووالياں ہیں جو دنیا بھر کی موسیقی خود میں سمیٹے ہوئے ہیں۔

پاکستان اور ہندوستان میں دھوم مچانے کے بعد نصرت فتح علی خان کو جب بالی وڈ میں کام کرنے کی دعوت ملا تو انھوں نے شاعر کے معاملے میں اپنی پسند صاف کر دی کہ وہ کام کریں گے تو صرف جاوید اختر کے ساتھ۔

دو ملکوں کے دو بڑے فنکاروں نے ملکر کر ’سنگم‘ المبم ریلیز کیا۔ ’سنگم‘ کا سب سے ہٹ گانا ’آفرین آفرین‘ تھا۔

جاوید اختر کے بولوں کو نصرت فتح علی خان نے اس گیت کو ایسی روانگی دی کہ نغمہ ختم ہونے کا بعد بھی اس کا نشہ نہیں ٹوٹتا تھا۔

جاوید اختر بتاتے ہیں: ’سنگم البم پر کام کے دوران تین چار دن نصرت کے ساتھ گزارے لیکن ان کی توجہ صرف کام پر رہی۔ وہ یا تو میرے شعر سنتے تھے یا پھر اپنی موسقي میں ہی گم رہتے تھے۔‘

صرف 48 سال کی عمر میں جب نصرت فتح علی خان 16 اگست سنہ 1997 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے، تو عالمی موسیقی میں ایک گہرا غم چھا گیا۔

،تصویر کا ذریعہrahat fateh ali khan

جس وقت نصرت فتح علی خان کا نام دنیا میں سر چڑھ کر بول رہا تھا اس وقت ان کے بھتیجے راحت فتح علی خان ان گانے کی باریکیاں سیکھ رہے تھے.

جب بھی نصرت کہیں بھی پروگرام پیش کرتے تو راحت کا کام صرف الاپ دینا ہوتا تھا

راحت فتح علی خان بتاتے ہیں کہ سٹیج پر تو انھیں ڈانٹ پڑتی ہی رہتی تھی ویسے تو انھیں غصہ نہیں آتا تھا لیکن اگر کوئی غصے والی بات ہو تو انھیں بہت غصہ آتا تھا۔