سنیما کے 100 سال:کم بجٹ اور زیادہ کمائی

بھارت میں ہر سال ایک ہزار سے زیادہ فلمیں بنتی ہیں اور یہاں کی فلمی صنعت دنیا کے سب سے بڑی فلم صنعتوں میں شمار ہوتی ہے۔ ممبئی ہندی سنیما کا گڑھ ہے لیکن بھارت جیسے متنوع ملک میں 20 سے بھی زیادہ دیگر زبانوں میں بھی فلمیں بنتی ہیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے فلم انڈسٹری کی حالت اچھی نہیں تھی لیکن اب اس میں بہتری آئی ہے اورگزشتہ سال اس میں 21 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا۔
اس دوران کامیاب ہونے والی فلموں میں بہت سی کم بجٹ کی فلمیں بھی ہیں۔
ڈائریکٹر ذويا اختر کہتی ہیں، ’ایسا ملٹی پلیکس کے آنے سے ہوا ہے۔ ملٹی پلیکس آنے سے کئی سکرین دستیاب ہوتی ہیں۔ اگر بازار میں 10 بڑے ستارے ہیں تو آپ بتائیے کہ وہ کتنی فلموں میں کام کر سکتے ہیں۔ ایسے میں ہوتا یہ ہے کہ آپ بڑے ستاروں کے ساتھ مقابلہ کرنے لگتے ہیں۔ پھر پیسہ لگانے والے بھی خطرہ اٹھانے کے لیے تیار ہونے لگتے ہیں اور مختلف طرح کی فلمیں بناتے ہیں۔‘
فلموں کے ڈیجیٹل ہونے سے بھی فلموں کی کل لاگت کم ہوگئی ہے۔ اب ڈسٹری بيوشن پر کم خرچ آتا ہے۔ فلم کی سکریننگ بھی سستی ہو گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ. فلموں کی رسائی بھی پانچ گنا زیادہ بڑھ گئی ہے اس لیے اب فلم کی کامیابی صرف بجٹ پر منحصر نہیں ہوتی۔
اس کی ایک مثال تامل فلم ’ناڈووول كوجم پكتاكاپو‘ ہے۔ یہ فلم ایک لاکھ اسّی ہزار ڈالر سے کم میں بنی تھی لیکن اپنے افتتاحی ہفتے میں ہی اس نے کمائی کے ریکارڈ قائم کر دیے۔
بجٹ کم رکھنے کے لیے اسے ہائی ڈیفینیشن میں چھوٹے ڈیجیٹل ایس ایل آر کیمرے سے شوٹ کیا گیا تھا۔
بجٹ پر قابو پانے کے لیے فلم میں نئے اور نوجوان لوگوں کو لیا گیا تھا۔ اس کی شوٹنگ ایک ماہ سے کچھ زیادہ وقت میں ختم ہوئی تھی جبکہ بڑے بجٹ والی فلموں کی شوٹنگ میں چھ ماہ سے ایک سال تک کا وقت لگ جاتا ہے اور فنکاروں کی فیس میں بھی پروڈکشن کے بجٹ کا ایک تہائی خرچ ہو جاتا ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی

فلم کے ہدایت کار بالاجی تھريتھرن کہتے ہیں، ’ٹیکنالوجی نے فلم بنانے کا خرچ کم کر دیا ہے۔ ڈویلپر کم بجٹ کی فلموں میں پیسہ لگانے کے لیے زیادہ خواہش مند رہتے ہیں پھر چاہے وہ ڈائریکٹر کی پہلی فلم ہی کیوں نہ ہو۔‘
ملٹی پلیکس سنیما آنے سے فلم دیکھنے والوں پر بھی کافی اثر پڑا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں سنیما کسی جنون کی طرح ہے، وہاں آج بھی سکرینیں بہت کم ہیں۔ بھارت میں 13 ہزار سنیما سکرینیں ہیں جبکہ امریکہ میں یہ تعداد تقریباً چالیس ہزار ہے۔
فلم ڈائریکٹر اس بات سے فکر مند ہیں۔ فلمساز کرن جوہر کا کہنا ہے کہ ’بھارت کے ایک ارب بیس کروڑ لوگوں میں سے کم سے کم تیس کروڑ لوگوں تک تو فلم پہنچني چاہیے۔ اگر ہم اس خلیج کو پاٹ دیں تو منظر ہی بدل جائے گا۔‘
آج کل بھارتی ہر سال فلموں کے دو ارب ستر کروڑ ٹکٹ خریدتے ہیں جو ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ہے لیکن ٹكٹ کی قیمت کی بات کریں تو یہ دنیا میں سب سے کم شرح پر ہے۔
اسی لیے یہاں ہالی وڈ کے مقابلے کل آمدنی بہت کم ہے تاہم فلموں کے بجٹ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ بالی وڈ کی ایک بڑے بجٹ کی فلم کا بجٹ اب بیس لاکھ ڈالر سے لے کر دو کروڑ ڈالر تک ہو سکتا ہے۔
پانچ سال پہلے پہلی بار کسی بھارتی فلم نے ایک ارب روپے سے زیادہ کی کمائی کی جبکہ 2012 میں نو فلموں نے یہ ہندسہ پار کیا۔ بھارت میں بنی سب سے مہنگی فلم ہے ’روبوٹ‘ جو تامل میں بنی ہے۔ رجنی کانت کی اس فلم کو بنانے میں تین کروڑ پچاس لاکھ ڈالر خرچ ہوئے۔
ہندوستانی سنیما کے 100 سال پورے ہو گئے ہیں اور فلم انڈسٹری ایسے طریقے تلاش کرنے میں مصروف ہے جس سے دنیا میں زیادہ لوگوں تک پہنچا جا سکے اور آمدنی بڑھائی جا سکے۔
اداکار، اور فلمساز انیل کپور کہتے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی فلم ساز عالمی سطح پر نہیں سوچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’ہمارے موضوع، ہمارا کام، ہماری سوچ سب مقامی ہوتی ہے. اگر ہماری فلمیں 200 کروڑ کما لیتی ہیں تو ہم جشن منانے لگتے ہیں، یہ تو کچھ بھی نہیں ہے. ہالی وڈ میں فلمیں دو ارب ڈالر سے بھی زیادہ تک کماتی ہیں، یہی فرق ہے۔‘







