فیض احمد فیض کی بیٹی منیزہ ہاشمی کا انٹرویو: 'فیض صاحب تو لوگوں کے تھے۔۔۔ بطور باپ میں نے انھیں ان کی زندگی کے بعد جانا'

،تصویر کا ذریعہMuneeza Hashmi
- مصنف, ترہب اصغر
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
’میرا رشتہ اپنے باپ سے ویسا نہیں تھا جیسا عام طور پر میں دیکھتی ہوں کہ میرے بچوں کا اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہے۔ میرے بیٹے کے بچے سکول سے واپس آتے ہیں تو باپ ان سے پوچھتا ہے کہ کیا کیا آج سکول میں؟ کیسا دن رہا، آؤ باہر کھانا کھا کر آتے ہیں، سیر کو چلتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔‘
یوں تو معروف شاعر فیض احمد فیض کو ایک دنیا جانتی ہے لیکن بطور والد وہ کیسے انسان تھے؟ اس سوال کے جواب کے لیے منیزہ ہاشمی سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ’انھیں شاعر، صحافی اور بطور اچھے انسان کے تو مجھ سمیت سب ہی جانتے ہیں۔ لیکن بطور باپ میں نے انھیں ان کی زندگی کے بعد جاننا ہے۔‘
اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ایک مصروف اور عوامی انسان تھے۔ ہم کئی کئی دن ان سے مل نہیں پاتے تھے۔‘
’میں رات کو سوتی تھی تو ابا گھر ہوتے تھے۔ صبح اٹھ کر پوچھو کہ وہ کہاں ہیں؟ تو جواب ملتا تھا کہ وہ تو چلے گئے۔۔۔ ارے بھائی کہاں چلے گئے؟ تو پتا چلتا تھا کہ وہ تو اتنے دن کے لیے فلاں ملک میں کانفرنس کے لیے چلے گئے۔‘

،تصویر کا ذریعہMuneeza Hashmi
وہ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ 'بیرون و اندرون ملک کانفرنسوں کے باعث انھوں نے ہمارے ساتھ وقت نہیں گزارا۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کافی عرصہ وہ جیل میں بھی رہے۔ بطور بیٹی مجھے ان سے اس بات کی بے حد شکایت ہے کہ انھوں نے ہمیں وقت نہیں دیا۔ بلکہ میرے پاس تو شکایتوں کا انبار ہے۔ ہم سب زندگی بھر یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ابھی بہت وقت ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کے پاس وقت نہیں ہوتا ہے۔'
’فیض صاحب کی ضرورت شاید ہم سے زیادہ اس ملک کو تھی‘
منیزہ ہاشمی اپنے والد کی مقبولیت اور ان کے ساتھ وقت گزارنے کی خواہش پر بتاتی ہیں کہ 'ان کی زندگی میں تو جب بھی ہم ابا کا وقت لینے کے لیے ان کے پاس جاتے تھے تو لوگوں نے انھیں گھیرا ہوتا تھا اور مختلف سولات کر رہے ہوتے تھے کہ فیض صاحب اس ملک کا کیا ہوگا؟ سیاست میں کیا ہو رہا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
ہم اکثر وہاں سے بھی کافی کچھ سیکھ لیا کرتے تھے۔ پھر اکثر ان سے کوئی ملتا تھا تو میں سوال کرتی تھی کہ یہ کون ہیں؟ کیا آپ انھیں جانتے تھے؟ تو بڑے ہی پیار سے جواب دیتے تھے کہ نہیں بیٹا وہ ہمیں جانتے تھے۔ اب جب یہ باتیں سوچتی ہوں تو تمام تر شکایات کے جوابات مل جاتے ہیں۔ وہ ایک عظیم شخص تھے اور ان کی ضرورت شاید ہم سے زیادہ اس ملک اور لوگوں کو تھی۔'

،تصویر کا ذریعہMuneeza Hashmi
تو پھر آپ اپنے والد سے بات چیت کیسے کیا کرتی تھیں؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'فیض صاحب کی ایک عادت نے باپ اور بیٹی کے رشتے میں کبھی دوری اس لیے نہیں آنے دی کیونکہ وہ باقائدگی سے ہمیں خط لکھا کرتے تھے۔‘
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
’زندگی کا ہر سبق وہ ہمیں ان خطوط کے ذریعے دے گئے۔ دنیا کے ہر کونے سے ان کے خط ہمیں موصول ہوا کرتے تھے۔ زندگی کے ہر موقع پر انھوں نے مجھے خط لکھا اور اس خط میں لازمی کوئی نا کوئی سبق ضرور ہوتا تھا۔‘
’مجھے ان کے ساتھ سفر کرنے کا موقع زیادہ تو نہیں ملا لیکن ایک دفعہ کراچی ان کے ساتھ گئی تو میں خاصی ڈری ہوئی تھی کیونکہ جہاز میں بیٹھنے سے ڈر لگتا تھا۔ اس دن بھی اس چھوٹی سی منیزے کو انھوں نے بڑے ہی پیار سے سمجھایا۔ اس کے علاوہ کھبی لاہور کے الحمرا آ جایا کرتی تھی۔ وہاں جا کر میں کھیلا کرتی تھی۔‘

،تصویر کا ذریعہMuneeza Hashmi
ان کا کہنا تھا کہ فیض احمد فیض الحمرا کے پہلے چیئرمین تھے۔
’اب ان کی جگہ میں بھی اسے عہدے پر ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ جب مجھے کہا گیا کہ اس سیٹ پر آ جاؤ تو میں پریشان ہوئی کہ کیا میں فیض صاحب کی جگہ پر نام کما سکوں گی۔ ابھی بھی میری تو یہ کوشش جاری ہے۔ ‘
گڑیا کی فرمائش اور دلیپ کمار کا آٹوگراف
جب میں نے فیض احمد فیض کی بیٹی منیرہ ہاشمی سے اپنے والد سے کی جانے والی فرمائشوں کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگیں کہ ’باپ سے فرمائشیں تو ہمیشہ کی ہیں۔ وہ تو میں نے اس وقت بھی کی جب وہ جیل میں تھے۔‘
اپنے بچپن کا قصہ سناتے ہوئے کہنے لگیں کہ 'چھ سال کی تھی مجھ سے ابا نے پوچھا کہ تمھیں کچھ چاہیے تو میں نے خط میں لکھ دیا کہ مجھے تو گڑیا چاہیے۔ اب جیل میں میرے والد کہاں سے گڑیا تلاش کریں۔ جب میں ان سے ملنے گئی تو کہنے لگے کہ آپ کے لیے میں نے ایک نظم لکھی ہے۔ میں نے منھ بنایا تو میری والدہ نے مجھے ڈانٹ دیا۔‘
’اس وقت انھوں نے اس نظم میں لکھا کہ میری بیٹی مینزہ عمر دیکھو تو چھ سال، عقل دیکھو تو 60 سال۔ وہ نظم مجھے آج بھی یاد ہے کہ انھوں نے اس نظم میں اس وقت میری شخصیت اور عادتوں کے بارے میں ایک ایک لفظ لکھا تھا۔‘

،تصویر کا ذریعہMuneeza Hashmi
منیزہ ایک اور فرمائش کے متعلق بتاتی ہیں کہ 'مجھے انڈین فلم سٹار دلیپ کمار بے حد پسند تھے اور ہیں۔ جب ابا انڈیا جا رہے تھے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ انڈیا جا کر کیا دلیپ کمار سے بھی ملیں گے؟ تو کہنے لگے کہ ہاں ملوں گا۔ میں نے کہا کہ آپ نے ان سے میرے لیے آٹوگراف لے کر آنا ہے۔‘
’مجھے یاد ہے کہ ابا کی واپسی تک میں نے ایک ایک دن گن کر گزارا۔ جب واپس آئے تو ابا سے پوچھا کہ آپ دلیپ کمار سے ملے؟ کہا ہاں ملا تھا۔ میں کہا تو میرا آٹوگراف ؟ تو کہنے لگے بیٹا ہم نے تو نہیں مانگا آٹوگراف ان سے، کیونکہ انھوں نے ہم سے ہمارا آٹو گراف مانگ لیا تھا۔ اف۔۔۔ جو میرا دل ٹوٹا۔'
پھر ایک دفعہ وہ ملک سے باہر تھے اور میری شادی کی سالگرہ آئی تو انھوں نے وہاں سے مجھے ٹاپس بھیجے۔
’میں نے اپنے باپ کے علاوہ کبھی کسی سے پیسے نہیں لیے‘

،تصویر کا ذریعہMuneeza Hashmi
منیزہ ہاشمی اپنے زندگی کے متعلق مزید بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ انھوں نے آج تک اپنے والد کے علاوہ کبھی کسی سے پیسے نہیں مانگے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'میری زندگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میں نے آج تک اپنے والد کے سوا کسی سے ایک روپیہ نہیں لیا اور انھوں نے ہمیشہ مجھے پیسے دیے۔ آج بھی جب مجھے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو پتا نہیں کہاں سے ان کے نام کے کوئی نا کوئی پیسے آ جاتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ لگا لیں کہ اپنی زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی انھوں نے بطور باپ اپنے تمام تر فرائض ادا کیے۔'
وہ اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ 'میں اپنا گھر بنانا چاہتی تھی اور اس کے لیے میری پاس پیسے کم تھے۔ اس وقت ابا ماسکو میں تھے۔ انھوں نےمجھے وہاں سے خط لکھا جو میری کتاب کا حصہ ہے۔ کہنے لگے کہ اپنا تو ایک ہی طریقہ ہے کہ پریشانی سے بچنے کے لیے کہ منھ سر لپیٹا اور شور میں بھی سو گئے۔ کیونکہ ایک بات یاد رکھو کہ تم پریشانی کے بارے میں کچھ کر تو سکتے نہیں ہو اس لیے اپنا سوئچ آف کر لیا کرو۔ اور پریشان نا ہوا کرو۔ فکر مت کرو تمھارا گھر بھی بن ہی جائے گا۔ اس کے بعد انھوں نے بھی میرے گھر بنانے کے لیے اپنا حصہ ڈالا۔'
یہ بھی پڑھیے
وہ مزید کہتی ہے کہ 'ایسا نہیں تھا کہ ہم لوگ بہت امیر تھے۔ عام گھرانے سے ہمارا تعلق تھا۔ لازمی بات ہے فیض صاحب پر دباؤ اور پریشانیاں بھی ہوتی تھیں لیکن انھوں نے زندگی کو بے حد احسن طریقے سے گزارا۔ کبھی غصہ نہیں کرتے تھے۔ اور انتہائی سادہ انسان تھے۔ ہاں انھیں محفلوں میں جانا پسند ہوتا تھا۔ لیکن وہاں بھی وہ اپنی الگ دنیا بنا لیتے تھے اور اکیلے بیٹھے کچھ نا کچھ سوچتے رہتے تھے۔ جس کے بعد وہ شاعری بھی لکھا کرتے تھے۔‘
’فیض احمد فیض کی کامیابی کے پیچھے میری والدہ کا ہاتھ ہے‘

،تصویر کا ذریعہCourtesy Mira Hashmi
منیزہ ہاشمی اپنے والد فیض احمد فیض کی کامیابی میں اپنے والدہ کے کردار کو بھی سراہتی ہیں۔
اس متعلق وہ کہتی ہیں کہ ان ( فیض احمد فیض) کی کامیابی کے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ میری والدہ کا بھی تھا کیونکہ انھوں نے ہر لمحہ ان کا ساتھ دیا اور ان کے پیچھے سے بھی تمام تر معاملات اور بیٹوں کو انھوں نے ہی پالا۔
’بیٹی ہونے کے باوجود والد کو دنیا سے جانے کے بعد پہچانا‘

،تصویر کا ذریعہMuneeza Hashmi
منیزہ ہاشمی اپنے والد کے متعلق مزید بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اگر میں یہ کہوں کہ فیض احمد فیض ایک بہت ہی پرائیویٹ انسان تھے تو اس میں کچھ غلط نہیں ہوگا کیونکہ بیٹی ہونے کے باوجود میں نے انھیں ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد پہنچانا۔'
وہ اپنی کتاب کے متعلق بات کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ 'اسی لیے میں ان کے اور اپنے رشتے اور تمام تر واقعات اور خطوط اور لمحات کو ایک کتاب کی شکل دینے کی کوشش کی ہے تاکہ جو خزانہ میرے پاس تھا اس کو بھی میں اس دنیا سے شیئر کر دوں کیونکہ فیض تو لوگوں کے تھے۔'











