آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
نادیہ افگن کی بے اولادی کی اصل وجہ: ’سوچا تھا اس پر کبھی بات نہیں کروں گی، یہ بہت تکلیف تھا اب بھی ہے‘
- مصنف, تابندہ کوکب
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام
’میں نے برسوں پہلے فیصلہ کیا تھا کہ میں اس کے بارے میں کبھی بھی عوامی سطح پر بات نہیں کروں گی کیونکہ یہ بہت تکلیف دہ تھا۔ یہ اب بھی ہے لیکن اس کی ضرورت ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے ہے کہ میں حیران ہوں کہ جس طرح سے خواتین نے احسن خان شو میں میرے ذاتی بیان پر ردعمل دیا۔‘
’میں اس بات پر پختہ یقین رکھتی تھی کہ تمام خواتین، چاہے ان کے بچے ہوں یا نہ ہوں، جانتی اور سمجھتی ہوں گی کہ یہ معاملہ کتنا نجی ہے۔ مجھے ہمییشہ یقین تھا کہ تمام خواتین سمجھتی ہیں کہ یہ سفر کتنا تکلیف دہ ہو سکتا ہے لیکن پچھلے کچھ دن نے مجھے تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ میں کتنی غلط تھی۔‘
ان جذبات اور خیالات کا اظہار اداکارہ نادیہ افگن نے سوشل میڈیا پر کیا اور اس کی وجہ اداکار احسن خان کے ایک شو میں ان کی گفتگو کے دوران ان کے بچے نہ ہونے کے بارے میں ان کا جواب تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ 15 سال میں بچے نہ ہونا ان کا انتخاب تھا۔
نادیہ افگن نے شو میں کیا کہا؟
11 جون کو نشر ہونے والے احسن خان کے شو میں نادیہ افگن اور ان کے دوست عمیر رانا مدعو تھے۔ نادیہ افگن کو ان کے مداح ان کے کرداروں کی وجہ سے بہت خوش مزاج اور شرارتی شخصیت کے طور پر جانتے ہیں۔
اسی حوالے سے خوشگوار ماحول میں ہنستے کھلکھلاتے گفتگو ہو رہی تھی کہ نادیہ کے مزاج پر بات آئی جس پر لطف لیتے ہوئے انھوں نے اپنے اور اپنے شوہر کے درمیان ہم آہنگی کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ تو کسی زمانے میں ’چڑیل‘ رہی ہیں لیکن ان کے شوہر بہت متحمل مزاج ہیں۔
ان کی غیر موجودگی میں گھر سنبھالنے کا ذکر کرتے ہوئے نادیہ نے ذکر کیا کہ ان کے پاس دو کتے ہیں کیونکہ ان کے بچے تو ہیں نہیں، تبھی احسن خان نے ٹوکتے ہوئے پوچھا ’بائی چوائس نہیں ہیں؟‘
نادیہ کا جواب تھا ’ہاں‘ ایک وقت تھا جب میں نے سوچا تھا، پھر میں نے سوچا کوئی بات نہیں دنیا میں اتنے بچے ہیں، میں بہت خوفزدہ ہوں، میں پریشان ہو جاتی ہوں اپنے دوستوں، اپنے بھائی کے بچوں کے لیے کیونکہ یہ دنیا بہت عجیب ہو گئی ہے۔‘
’احسن آپ لوگ بہت بہادر ہو کہ آپ کے بچے ہیں، میرا تو سانس بند ہوتا ہے۔‘
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
یہ کہتے ہوئے نادیہ افگن نے اپنی آنکھوں کے کنارے بھی صاف کیے تھے اور ان کا یہ عمل بظاہر ہلکے پھلکے انداز میں ہونے والی گفتگو کی وجہ سے نظر انداز ہو گیا۔
اس پر شو میں شریک اداکار اور نادیہ کے دوست عمیر رانا نے کہا ’ایک بات تو طے ہے کہ یہ (نادیہ) دنیا کی بہترین بے بی سٹر ہیں، یہ بہت پیار کرنے والی اور محتاط ہیں۔‘
یہاں سے بات دوبارہ نادیہ افگن کے شوہر اور ان کے درمیان ذمہ درایوں کی تقسیم پر چلی گئی۔
نادیہ کی بات کو ادھورا اور غلط انداز میں پیش کیا گیا
نادیہ افگن کے اس بیان کو اگلے چند دن تک مختلف نیوز پلیٹ فارمز پر کچھ ایسی ہیڈ لائن کے ساتھ شائع کیا جاتا تھا۔
’بچوں کی خواہش نہیں دنیا میں بہت بچے ہیں۔ نادیہ افگن‘
’نادیہ افگن کو بچوں کی خواہش کیوں نہیں ‘
’بچوں کی خواہش نہیں‘، نادیہ افگن نے ایسا کیوں کہا‘
’ایک حالیہ انٹرویو میں نادیہ افگن نے بتایا کہ ان کے بچے نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کی پرورش کی ذمہ داری سے ہی خوفزدہ ہیں۔‘
یہ تمام ہیڈ لائنز دیکھ کر سوشل میڈیا پر نادیہ کے خلاف خاصا رد عمل دیکھنے کو آیا اور خاص طور پر خواتین کی جانب سے۔
تکلیف دہ تبصروں نے بات کرنے پر مجبور کر دیا: نادیہ کا وضاحتی بیان
نادیہ نے اپنے انسٹا گرام پر ایک تفصیلی پوسٹ ڈالی جس پر نہ صرف انھوں نے اپنے بیان پر غیر حساس تبصروں کا ذکر کیا بلکہ اپنے بچوں کی پیدائش کے حوالے سے اپنے تکلیف دہ تجربات بھی بتائے۔
انھوں نے لکھا ’ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ (تبصرے کرنے والی) خواتین ہیں، ان کے تکلیف دہ تبصرے، ظالمانہ رائے، سخت پیغامات اور ہمدردی کی کمی، جس نے مجھے اپنا فیصلہ بدلنے اور اس کے بارے میں عوامی سطح پر بات کرنے پر مجبور کیا۔‘نادیہ افگن کے کہا ’جوڈی اور میری شادی کو 15 سال ہو چکے ہیں۔ ہم دونوں کو بچے پسند ہیں، ہم چاہتے تھے کہ ہمارا بھی ایک بچہ ہو لیکن اللہ کے منصوبے الگ تھے۔‘
نادیہ نے بتایا کے وہ ماں بننے کی کوشش کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’ میرے دو اسقاط حمل ہو چکے ہیں۔ میں نے تین ناکام آئی یو آئی (بے اولادی کا علاج) کروا لیے ہیں۔ میں نے دو بچوں کو ان کی پیدائش سے پہلے کھونے کے بعد ڈپریشن کا مقابلہ کیا ہے۔‘
نادیہ افگن نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک اور اسقاط حمل کے خوف کا سکار رہیں اور ہارمونل مسائل کی وجہ سے ان وزن بہت بڑھ گیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ’ہم آئی وی ایف کے لیے تیار تھے لیکن میں صرف اس لیے یہ نہیں کر سکی کہ میں ایک اور جذباتی اور جسمانی طور پر نڈھال کر دینے والے عمل کے بعد حمل کے ٹیسٹ پر صرف ایک لائن کی اذیّت کو برداشت نہیں کر سکتی تھی۔‘
اس سارے معاملے میں نادیہ نے اپنے شوہر کے کردار کے حوالے سے لکھا کہ ’میرے شوہر، جوڈی، میرے سفر میں غیر معمولی طور پر سمجھدار اور معاون رہے ہیں۔ انھوں نے دیکھا کہ مجھ پر کیا گزری، وہ سمجھ گئے کہ میں کیسا محسوس کر رہی ہوں، اور ہم نے مل کر یہ فیصلہ کیا۔ ان کے لیے میرا سکون اور جسمانی اور ذہنی صحت ہر چیز پر فوقیت رکھتی تھی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ان پر غیر حساس اور تکلیف دہ کرنے والی خواتین ایسی بھی تھیں جو ان کے اس پاس موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’پچھلے کچھ دنوں میں انھوں نے بتایا کہ ان میں ہمدردی کی کتنی کمی ہے۔ میں نے سنیچر کی رات سے اب تک اپنے نقصان کو ایک بار محسوس کیا ہے۔‘
سوشل میڈیا پر خواتین کا رد عمل
انسٹا گرام پر نادیہ افگن کی اس وضاحتی پوسٹ پر خواتین نے بہت سے ہمدردانہ جذبات کا اظہار کیا۔ بیشتر کا کہنا تھا کہ ’ہمیں افسوس ہے کہ آپ کو یہ وضاحت دینا پڑی‘۔
ایسی ہی ایک سوشل میڈیا صارف نورین یعقوب کا کہنا تھا کہ ’کسی کو بھی اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کی ضرورت نہیں اور ایک عورت ہونے کے ناطے یہ آپ کی مرضی یا فیصلہ ہے، میں یقین نہیں کر سکتی کہ آپ کو اپنی صفائی دینا پڑی، میں آپ کے درد کو محسوس کر سکتی ہوں۔۔۔ یہ مجھ پر گزری ہے۔‘
ایک اور صارف فرح شاکر کا کہنا تھا ’ہمارے معاشرے میں لوگ سمجھتے ہیں کہ انھیں لوگوں کے بارے میں رائے زنی کا حق حاصل ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ عورت کے لیے بچے پیدا نہ کرنا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر جس حالت سے گزرتی ہے وہ کوئی تصور نہیں کر سکتا۔ اگر آپ کا خاندان ہے تو الحمدللہ لیکن اگر کوئی اور نہیں تو یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مرضی سے ہے۔‘
نادیہ افگن کی اس پوسٹ پر کئی ایسی خواتین بھی نطر آئیں جنھوں نے خود اپنے ذاتی تجربات کا ذکر کرتے ہوئے نادیہ کو تسلی دی کہ وہ ان کے جذبات سمجھ سکتی ہیں کیونکہ وہ خود اس سب سے گزر چکی ہیں۔
ایک صارف بتول دانیال نے کہا ’آپ جو بات کر رہی ہیں وہ صرف وہی خواتین سمجھ سکتی ہیں جو ایسے تکلیف دہ تجربات سے گزری ہیں۔ میں نے بھی اپنے بچے کو پیدائش سے پہلے کھو دیا اور آج تک میں دوسری خواتین کو اپنے اسقاط حمل کی کہانی اور اس کی شدت کا موازنہ مجھ سے کرتے ہوئے دیکھتی ہوں۔ یہ دنیا ایسے لوگوں کی وجہ سے ظالم ہے جنہیں جواب دیا جانا چاہیے۔‘
ایک صارف عبیرہ کا کہنا تھا کہ ’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگ اور خاص طور پر خواتین دوسری خواتین کے انتخاب کا احترام کیوں نہیں کر سکتیں۔ اگر کسی نے بچے پیدا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو ٹھیک ہے! اگر کوئی گود لینا چاہتا تو ٹھیک ہے۔۔۔ اگر کوئی سنگل پیرنٹ بننا چاہتا ہے تو بھی ٹھیک ہے۔۔۔ آپ کو کسی کو وضاحت دینے کی ضرورت نہیں۔ ہم اپنے الفاظ کے استعمال میں سفاک ہوجاتے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ لوگوں کو الفاظ کے اثر کا احساس ہو جائے۔‘
عورت بچے پیدا کرنے کا فیصلہ خود کیوں نہیں کر سکتی
اگرچہ نادیہ افگن کے وضاحتی بیان سے یہ تو پتا چل گیا کہ ان کے ہاں اولاد کیوں نہیں ہوئی لیکن جیسا کہ ان کے بیان پر رد عمل آیا سوال یہ ہے کہ خواتین یہ فیصلہ کیوں نہیں کر سکتیں کہ انہیں پچہ پیدا کرنا ہے یا نہیں۔‘
سنہ 2018 میں کی گئی پیو سینٹر کی ایک تحقیق کے مطابق سنہ 1976 کے بعد سے ان خواتین کی تعداد دگنی ہوئی ہے جو بچے پیدا نہیں کرنا چاہتیں۔
امریکہ میں آج ہر پانچ میں سے ایک عورت بچہ پیدا نہیں کرنا چاہتی مگر بچے پیدا نہ کرنے والی خواتین کو پاکستان سمیت بیشتر معاشروں میں آج بھی دباؤ اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور تنگ نظر معاشروں میں تو آج بھی عورت کو تب تک مکمل نہیں سمجھا جاتا جب تک کہ وہ بچہ پیدا نہ کریں۔
واشنگٹن ڈی سی کی رہائشی 31 سالہ زینب امین جن کا تعلق لاہور سے ہے۔ جو تعلیم کے حصول کے بعد اب ایک کمپنی کے ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ میں ملازمت کر رہی ہیں۔ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میری خوشی اسی میں ہے کہ میری زندگی میں بچے نہ ہوں۔ ضروری تو نہیں کہ گھر بنانے کے لیے بچے پیدا کیے جائیں۔‘
زینب کے لیے ان کی آزادی سب سے اہم ہے۔ 'میں اپنی زندگی کسی اور کے مطابق نہیں گزار سکتی۔ میں بچے پیدا کرنے کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتی۔ میرے لڑکے دوست مجھے کہتے ہیں کہ ایسے تو کوئی لڑکا مجھ سے شادی نہیں کرے گا مگر میرا جواب انھیں یہی ہوتا ہے کہ میں بھی کسی ایسے بندے سے شادی نہیں کرنا چاہتی جو مجھ پر میرے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کو فوقیت دے۔‘
لاہور میں رہنے والے زینب کے والدین ان کی اس سوچ سے متفق نہیں مگر وہ زینب پر دباؤ بھی نہیں ڈالتے۔ زینب کے لیے پاکستان میں رشتہ داروں کے سوالات سے بچنا ناممکن ہے سو بچے کے بغیر زندگی گزارنے کی قیمت ان کے لیے وطن سے دوری ہے۔
دوسری جانب حرا نے لاہور میں لمز سے گریجویشن کی مگر شادی کے بعد سے حرا خاتونِ خانہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا ’مجھے غلط مت سمجھیں۔ میں اپنے بچوں سے بےحد پیار کرتی ہوں لیکن میں ایک مشین بن کر رہ گئی ہوں۔ صبح پہلے ایک بچے کو سکول چھوڑوں پھر دوسرے کو۔ اگر میری بیٹی ایک مخصوص وقت پر ہوم ورک نہ ختم کرے تو وہ تنگ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ہر عورت ماں بننے کے لیے نہیں بنی۔ لیکن ہمارا معاشرہ ابھی اس نہج پر نہیں پہنچا کہ ایسی عورتوں کو مکمل تسلیم کر سکے۔‘