ڈرامہ جلن کا اختتام سوشل میڈیا پر موضوع بحث: ’سالی سالی ہوتی ہے اور گھر والی گھر والی ہوتی ہے‘

،تصویر کا ذریعہARY/JALAN
- مصنف, تابندہ کوکب
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام
'آئی ول مِس نشا‘ ، ’مجھے نشا بہت یاد آئے گی‘۔ یہ ردعمل پاکستانی سوشل میڈیا پر ناپسندیدہ ترین کرداروں میں سے ایک کے لیے تھا۔
پاکستانی معاشرے کے لیے انتہائی بولڈ اور متنازغ موضوع پر مبنی کہانی کی وجہ سے ڈرامہ 'جلن' سوشل میڈیا پر مسلسل زیر بحث رہا۔ کبھی اسے معاشرتی اقدار کے منافی قرار دیا گیا تو کبھی اسے نوجوانوں کو خراب کرنے اور رشتوں کے تقدس کی دھجیاں بکھیرنے جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈرامے کے آغاز پر ناظرین کو لگا یہ دو بہنوں میں قربانی دینے اور جلن سے لے کر ناجائز فرمائشیں کرنے جیسی کوئی کہانی ہوگی لیکن جوں ہی ایک سالی کا بہنوئی کی دولت اور شان و شوکت دیکھ کر اسے اپنی جھوٹی محبت کا یقین دلا کر بہن کو طلاق دلوانے والا موڑ آیا تو کئی ناظرین کے لیے بات گویا پانی سر سے گزرنے کی حد تک آ گئی۔
یہ بھی پڑھیے
ہوا کچھ یوں کے سوشل میڈیا پر اس کے خلاف گرما گرم مباحثے ہوئے اور نوبت پیمرا میں شکایت اور پابندی تک آ گئی۔ گو کہ کچھ مناظر سنسر کیے جانے کے بعد یہ ڈرامہ دوبارہ نشر بھی ہوا اور اختتام پذیر بھی ہو گیا۔
گذشتہ رات اس ڈرامے کے شائقین کا دکھ دوہرا تھا۔ ایک تو یہ کہ وہ اس ڈرامے کے کرداروں خصوصاً ’مرکزی کردار نشا' کو بہت مس کریں گے اور دوسرا یہ کہ انہیں یہ اختتام پسند نہیں آیا۔
برے کرداروں کے لیے سزائیں غیر حقیقی
گو کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا کے کسی ڈرامے کا اختتام ناظرین کے من پسند طریقے سے نہ ہوا ہو لیکن اب کی بار شائقین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ صرف ڈرامے کو ختم کرنے کے لیے برے کرداروں کو سزائیں دینا ٹھیک نہیں کیونکہ حقیقی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ایسی ہی ایک صارف یارش کا کہنا تھا ’منفی کرداروں کو آخر میں پاگل کر دیا جاتا ہے، یہ کیا بکواس ہے ٹرینڈ ہے۔ مشکل سے کبھی حقیقی زندگی میں ایسا سنا ہو گا کہ اپنے برے کاموں کی وجہ سے کوئی پاگل ہو گیا۔‘

،تصویر کا ذریعہTWITTER
ان کا یہ ردِ عمل ڈرامے میں مرکزی کردار نشا کو اپنی بہن کی روح نظر آنے پر چیخنے چلانے کے بعد اندھا دھند گاڑی چلا کر حادثے کا شکار ہونے والے مناظر پر تھا۔
لیکن ایک اور صارف حفیظہ نے ان کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ نشا 'پاگل نہیں ہوئی تھی یہ شروع دن سے ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ نشا خود غرض تھی جو محبت نہیں کرتی تھی۔ وہ اپنی بہن مینو سے حسد کرتی تھی۔ '
ایک صارف نمرہ کے لیے ڈرامے کا ایک ڈائیلاگ معلوماتی ثابت ہوا 'ایک بات کا انکشاف ہو گیا، ٹھنڈے ہاتھ والے لوگ واقعی بے وفا ہوتے ہیں۔'

،تصویر کا ذریعہTwitter
وہیں کچھ صارفیں کو ڈرامے کا اختتام دکھی کر گیا۔ کچھ کو ڈرامے میں بے وفائی کرنے والے اسفند کی موت کی وجہ ان کی مینو سے محبت نظر آئی۔ اگرچہ اسفند نے پچھتاوے کا شکار ہو کر خود کشی کی تاہم زینب خان کے بقول 'کیا المناک اختتام تھا۔ سچی محبت کرنے والے مر بھی جاتے ہیں۔'

،تصویر کا ذریعہTwitter
صائمہ خان نامی صارف کا کہنا تھا ’ٹیم جلن کو ڈرامے کی کامیابی مبارک ہو۔ آپ لوگوں نے ہر ہفتے ہمیں جکڑے رکھا ۔ تقریباً پوری کاسٹ کی جانب سے لاجواب کارکردگی دکھائی گئی جن میں قابل ذکر منال خان، اماد عرفانی شامل ہیں۔'
ایک صارف مس ملک ان لوگوں میں شامل ہیں جو اس اختتام سے مطمئن ہیں انھوں نے نشا کی تصاویر کے ساتھ ٹویٹ کیا کہ 'برائی کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے۔ '

،تصویر کا ذریعہTwitter
ایک صارف حمزہ بھٹہ کا کہنا تھا 'آج جلن کی قسط نے مجھے بہت متاثر کیا۔ آج کے ڈائیلاگ بہت طاقتور تھے۔ میں متاثر ہوا ' گناہ بڑے ہوں تو موت بھی آسانی سے نہیں ملتی۔'

،تصویر کا ذریعہTwitter
اسی طرح ایک صارف حبیبہ نے ایک اور ڈائیلاگ شیئر کیا جو اس ڈرامے کے آخری منظر میں شامل تھا 'کچھ لوگوں کی سزا اس دنیا میں ہی شروع ہو جاتی ہے' اور ان کے بقول 'یہ ایک جملہ پورا پیغام سمجھا جاتا ہے۔'
یہ وہ واحد ڈائیلاگ ہے جس کے بارے میں ڈرامے کے ہدایت کار عابس رضا کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ جملہ خود لکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ڈرامے کے مصنف سے خصوصی درخواست کر کے یہ ڈائیلاگ ڈرامے کا حصہ بنایا۔
سزا مرنے سے زیادہ اذیت ناک
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عابس رضا کا کہنا تھا ان کے خیال میں 'کسی بھی بُرے کردار کے لیے مر جانا زیادہ آسان ہے لیکن سزاؤں کے ساتھ جیتے رہنا زیادہ اذیت ناک ہے۔‘
نشا کے کردار کے اختتام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'نشا اس ڈرامے کے آخر میں پاگل نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ تو شروع سے ہی جنونی تھی، وہ ایک نفسیاتی مریضہ تھی، اس لیے جنونی کو ڈرامے میں اور پاگل نہیں کیا جا سکتا۔'
جہاں تک نشا کے آخری منظر میں بوکھلاہٹ کا شکار ہونے کا تعلق تھا اس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’ایک لڑکی جو جیتنا ہی جانتی تھی اور وہ صرف پا رہی تھی اب اسے لگ رہا تھا کہ وہ اپنے واحد وکٹم سے ہار رہی تھی، اسے یہ وہم ہو رہا تھا کہ اس سے ہارنے والی اس کی بہن اب جیت رہی ہے۔ تو وہ بوکھلا رہی تھی۔'
ایک دوسرے اہم کردار اسفند کے انجام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ سزائیں ایک دم نہیں دی گئیں بلکہ یہ سب بتدریج ہوا۔ 'جیسا کہ اسفند نے نشا کے چھوڑ کر جانے کے بعد پہلے غصے، پھر مینو سے بے وفائی کے پچھتاوے اور پھر شرمندگی کا سفر طے کیا جس کے بعد اس نے خود کشی کی۔'

،تصویر کا ذریعہAabis Raza
حقیقی دنیا اور ڈراموں کے لیے اخلاقیات کا فرق
جلن ڈرامے کے ہدایت کار عابس رضا کا کہنا تھا کہ ڈرامے کا مقصد تھا کہ یہ بتایا جائے کہ وہ تمام ممنوع چیزیں جن میں حسد، نشہ، غیبت شامل ہیں ان کے نتائج معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں اور ہمیں کسی بھی معاشرے میں ایک باعزت کردار ادا کرنا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ڈرامے میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ خود غرضی جیسی برائیوں کے نتائج برے ہوتے ہیں اور ایسا کرنے والے بدلحاظ ہو جاتے ہیں۔'
ڈرامے میں سالی اور بہنوئی کے افیئر کا متنازع موضوع دکھانے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے انھیں ملا جلا ردعمل ملا، تاہم انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ اتنے شدید ردعمل کی توقع نہیں کر رہے تھے۔

،تصویر کا ذریعہARY Digital
ان کا کہنا تھا کہ 'جب میں یہ ڈرامہ بنا رہا تھا تو میرے لیے یہ ایک چیلنج تھا کیونکہ یہ کوئی نیا موضوع نہیں تھا اور پہلے سے دکھائے جانے والے موضوع کو مجھے دوبارہ بنانا تھا۔'
انھوں نے اس ایک کہاوت پر بھی اعتراض کیا جس میں کہا جاتا ہے کہ 'سالی آدھی گھر والی ہوتی ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں جو حدود ہیں انہیں پوری طرح سے تسلیم کیا جانا چاہیے اور ڈرامے کے حوالے سے لاگو اخلاقیات کو عام زندگی میں بھی اپنایا جانا چاہیے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'سالی سالی ہوتی ہے اور گھر والی گھر والی ہوتی ہے اس لیے ان حدود کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انھیں ایک اور بات پر لوگوں کا کافی ردعمل دیکھنا پڑا جس میں ایک منظر میں نشا ابارشن کروا کر آتی ہے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ نشا کا کردار کبھی سچ نہیں بولتا تھا اس لیے اس منظر کا مقصد صرف اتنا تھا کہ اس کا کردار ’بچہ نہیں چاہتا‘ اور ممکن ہے کہ وہ جھوٹ بول رہی ہو لیکن ناظرین اس کی جزئیات میں چلے گئے کہ ایک لڑکی ابارشن کروانے کے بعد ایسے کیسے ٹھیک ٹھاک چل کر آ سکتی ہے۔
ان کے خیال میں ہمارے ناظرین کو ہر چیز کو ڈائیلاگ کے ذریعے تفصیل سے سمجھائے جانے کی عادت پڑ گئی ہے اس لیے وہ بچوں کی پرورش جیسے اہم موضوع پر زیادہ بحث کرتے دکھائی نہیں دیے حالانکہ یہ بھی ان کے ڈرامے کا ایک اہم موضوع تھا۔
زیادہ تر نئے اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ نوجوان اداکاروں میں محنت کرنے کی لگن زیادہ ہوتی اس لیے تمام نئے اداکاروں نے ان کی ہدایت کاری کو سمجھتے ہوئے اپنی بھرپور محنت سے کرداروں کو نبھایا۔

کہانی سامنے آنے سے پہلے ہی پابندی کا فیصلہ کیا گیا
اس سے پہلے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس ڈرامے کی مرکزی کردار ادا کرنے والی منال خان کو شائقین کی جانب سے نفرت بھرا رد عمل بھی پسند آیا۔ کیونکہ ان کے بقول ان کی نظر میں یہ نفرت ان کے کردار کے لیے ہے ان کے لیے نہیں۔
چونکہ یہ ڈرامہ کہانی کے ایک پہلو کی وجہ سے تنازع کا شکار بھی ہوا اور یہاں تک کہ پیمرا نے اس پر نوٹس جاری کرتے ہوئے اس پر پابندی تک لگا دی تھی۔ اس حوالےسے وضاحت دیتے ہوئے منال خان کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ڈرامے میں دکھائے گئے موضوع میں 'یہ معاملہ سالی اور بہنوئی کا نہیں تھا لوگوں نے اسے بنا دیا ہے۔ حالانکہ یہ کہانی ایسی لڑکی کی ہے جسے سب کچھ چاہیے۔'
پیمرا کی جانب سے پابندی کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب ڈرامے کی کہانی اب کھل کر سامنے نہیں آئی تھی۔ منال خان کے خیال میں 'شائیقین کے ہاتھ میں پابندی کا فیصلہ نہیں ہونا چاہیے انھیں صرف یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ دیکھیں یا نہ دیکھیں۔'










