اچھی سیکس لائف کیسی ہوتی ہے اور اس میں موجود خرابیاں کیسے دور کی جائیں؟

    • مصنف, رافیل ابوشائبے
    • عہدہ, بی بی سی نیوز

جب سیکس کی بات کی جاتی ہے تو اکثر لوگ ایسے بھی ہیں جو سیکس کے دوران اپنی پرفارمنس کو نمبرز کے ذریعے ناپتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر وہ ہفتے میں متعدد مرتبہ فلاں دورانیے تک سیکس کر پائیں گے تو ان کی زندگی اچھی گزرے گی۔

لیکن کیا یہ سیکس کے دوران اپنی پرفارمنس ناپنے کا درست طریقہ ہے اور کیا کوئی نمبر کسی جوڑے کی اچھی سیکس لائف کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے؟

ایسے بہت سارے سوالات کے جوابات جاننے کے لیے بی بی سی منڈو نے ماہرِ جنسیات اور جنسی خواہشات پر دو کتابیں لکھنے والی ڈاکٹر ایمیلی ناگوسکی سے بات کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’متعدد مرتبہ جب جوڑے تھیراپی کے لیے آتے ہیں تو ایک بات واضح نظر آتی ہے کہ ان لوگوں کی جنسی خواہشات میں فرق ہوتا ہے۔‘

ڈاکٹر ایمیلی کہتی ہیں کہ سینکڑوں سے ان کی کہانیاں سُننے کے بعد انھیں سب سے زیادہ عجیب بات یہ لگتی ہے کہ لوگ سیکس کا لُطف اُٹھانے کے لیے اب بھی دیگر لوگوں کے تجربات کا سہارا لے رہے ہوتے ہیں، یہ سمجھے بغیر کہ آخر کون سے چیز ان کی جنسی حس کو بھڑکاتی ہے۔

’وہ سیکس کو ایک فرض سمجھ کر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کے کچھ اصول ہیں اور ان پر عملدرآمد کرنا انتہائی ضروری ہے لیکن میں انھیں ایک آئیڈیا دیتی ہوں کہ اگر آپ کے پاس موجود شخص کے ساتھ آپ سیکس نہیں کرنا چاہ رہے تو آپ جنسی طور پر ناکارہ نہیں، یہاں بات صرف یہ ہے کہ آپ کو میسر شخص کے ساتھ شاید سیکس کرنا آپ کو پسند نہیں۔‘

آج کل اس بات پر بہت گفتگو کی جا رہی ہے کہ لوگ ماضی کے مقابلے میں اب کم سیکس کرتے ہیں۔ اس حوالے سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ایمیلی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس موجود ڈیٹا اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں مِیں سیکس کے رجحان میں کمی آئی ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایک ہفتے میں کتنی بار سیکس کیا جاتا ہے اس سے سیکس لائف اچھی یا بُری ہونے کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

وہ کہتی ہیں کہ اس جوڑے کے بارے میں سوچیں جو اکثر سیکس کرتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی فرد اس کا لُطف نہیں اُٹھا رہا ہوتا۔

’کیا آپ ایسے سیکس کو ترجیح دیں گے؟ یا پھر ایسے سیکس کو جو کبھی کبھار ہی ہوتا ہو لیکن دونوں افراد اس کا لُطف اُٹھاتے ہوں؟‘

ڈاکٹر ایمیلی کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے سیکس کو ہی ترجیح دی جاتی ہے جس کا لُطف دونوں افراد لے رہے ہوں اور یہی سیکس کے دوران پرفارمنس ناپنے کا پیمانہ ہے۔

ان کے مطابق ایک ہفتے میں کتنی بار سیکس کیا گیا، اس بات کو گِننا آسان ہے لیکن آپ اس کا کتنا لُطف اُٹھاتے ہیں یہ جاننا تھوڑا پیچیدہ عمل ہے۔

ڈاکٹر ایمیلی مزید وضاحت دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’یہاں کچھ روایتیں بھی ہیں کہ کتنی دفعہ سیکس کیا جانا چاہیے اور اس کے دوران کتنی مرتبہ آرگازم ہونا چاہیے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں ایک ایسے جوڑے کو جانتی ہوں جنھوں نے کہیں کچھ پڑھ کر یہ طے کر لیا تھا کہ انھوں نے ہفتے میں فلاں مرتبہ تو سیکس کرنا ہی ہے۔‘

ڈاکٹر ایمیلی اس جوڑے کا حصہ خاتون کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اس رشتے میں مسئلہ یہ تھا کہ وہ سیکس اپنی اصل خواہش کے مطابق نہیں کر رہی تھیں بلکہ اپنا فرض سمجھ کر کر ہی تھیں اور جب وہ جوڑا یہ بار بار کرتا رہا تو خاتون کے ذہن میں یہ بات آ گئِی کہ ان کا لُطف شاید کوئی معنی ہی نہیں رکھتا، اسی سبب ان کے رشتے کو نقصان پہنچا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اس مثال کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیکس کی مقدار معنیٰ نہیں رکھتی بلکہ جنسی تسکین اور اطمینان معنی رکھتا ہے۔

یہاں پھر یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ کون سی عادات اپنانے والے جوڑے سیکس کا زیادہ لُطف لیتے ہیں؟

ڈاکٹر ایمیلی کہتی ہیں کہ ان کے تجربے کے مطابق جن جوڑوں میں جنسی کینیکشن اچھا ہوتا ہے ان میں اکثر تین خصوصیات پائی جاتی ہیں۔

پہلی خاصیت یہ کہ وہ ایک دوسرے کو واقعی بہت چاہتے ہیں اور ایک دوسرے کو بہت عزت دیتے ہیں، اسی سبب ان کے درمیان سیکس بھی بہت اچھا ہوتا ہے۔

دوسری خاصیت یہ کہ وہ سیکس کو دوسری چیزوں پر فوقیت دیتے ہیں اور انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے رشتے میں سیکس کا مرکزی کردار ہے۔

ڈاکٹر ایمیلی کے مطابق ’جب وہ سیکس نہیں کر رہے ہوتے یا کم کر رہے ہوتے ہیں تب بھی وہ سیکس کی اہمیت کا تسلیم کر رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے جُڑنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔‘

تیسری خاصیت کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر ایمیلی کہتی ہیں کہ ایسے جوڑے سیکس کے دوران کلچرل، خاندانی یا مذہبی روایات کو بالائے طاق رکھنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

لیکن اگر کوئی سیکس سے خوش نہیں تو اسے کیا کرنا چاہیے؟

ڈاکٹر ایمیلی کہتی ہیں کہ لوگ اکثر یہ بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اگر آپ کسی معاملے پر بحث کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ تو غلط ہو رہا ہے۔

لیکن ان کے مطابق سیکس لائف میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ انسان کو اس حوالے سے بات کرنی چاہیے۔

وہ کہتی ہیں کہ اکثر لوگ سیکس پر بات کرنے سے اس لیے گھبراتے ہیں کیونکہ ان ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ان کی کسی بات سے ان کے پارٹنر کے جذبات مجروح نہ ہو جائیں۔

ڈاکٹر ایمیلی تجویز کرتی ہیں کہ ایسے میں جوڑوں کو بات چیت کے دوران ’یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمیں اپنی سیکس لائف میں بہتری لانی ہے۔ بھلے ہی آپ کو اس حوالے سے بات کرنا نہیں سکھائی گئی ہو لیکن دوسرے کا خیال رکھنے اور ان کی خواہشات کے احترام کے خاطر ایسی گفتگو ہونی چاہیے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی جوڑے کو سیکس کے دوران مسائل کا سامنا ہے تو سیکس تھیراپی ان کے لیے فائدے مند ثابت ہو سکتی ہے۔

’ایسے سیشنز میں تھیراپسٹ آپ کو ان معاملات پر گفتگو کرنا سکھا رہا ہوتا ہے اور اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ایسی گفتگو جب آپ کرتے ہیں تو آپ کے اندر ڈر ختم ہوتا ہے اور آپ سیکس کو بُرا موضوع سمجھنا بھی بند کر دیتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ایمیلی کہتی ہیں کہ آپ کی جسمانی خواہشوں کا دماغ سے بھی گہرا تعلق ہوتا ہے۔

’فرض کیجیے ایک خاتون کو اپنے بچے کو جنم دینے کے دوران تکلیف کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اب جسمانی درد سے نجات پا چکی ہیں لیکن جب وہ اپنی سیکس لائف دوبارہ شروع کرنے کا سوچتی ہیں تو انھیں اس میں تکلیف محسوس ہو سکتی ہے کیونکہ ان کی تمام حسیں ابھی بھی ماضی کو لے کر الرٹ موڈ پر ہیں۔‘

ڈاکٹر ایمیلی کے مطابق ایسے میں فزیوتھراپی بھی کارآمد ثابت ہوتی ہے۔

’میں ہمیشہ یہی کہتی ہوں کہ سیکس میں آپ کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، اگر آپ کو اس دوران تکلیف ہے تو آپ کو طبی معالج کے پاس جانا چاہیے۔‘

ان تمام عوامل کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی میں کیا تبدیلیاں لائی جائیں جن سے آپ کی سیکس لائف بہتر ہو سکے؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر ایمیلی کہتی ہیں کہ ’آپ خود کو یہ کھوجنے کی اجازت دیں کہ دوران سیکس آپ کو کیا پسند ہے اور اس اپنے پارٹنر کو بھی اجازت دیں کہ وہ یہ جان سکیں کہ انھیں کیا پسند ہے۔‘

’اچھا سیکس وہی ہوتا ہے جس سے دونوں پارٹنر خوش ہوں اور اس کا لطف لیتے ہوں۔‘