سندھ پولیس اہلکاروں کی واپسی، وجہ لانگ مارچ کا مؤخر ہونا یا مالی وسائل؟

پولیس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

    • مصنف, شہزاد ملک
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے سندھ پولیس کے دو ہزار پولیس اہلکاروں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان پولیس اہلکاروں کو سندھ حکومت کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اسلام آباد میں لانگ مارچ کی کال کے بعد شہر میں امن وامان برقرار رکھنے کے لیے طلب کیا گیا تھا۔

وزارت داخلہ  کے ایک اہلکار کی طرف سے امن وامان برقرار رکھنے کے لیے سندھ کی صوبائی حکومت سے چھ ہزار پولیس اہلکاروں کو پاکستان تحریک انصاف کے ممکنہ لانگ مارچ کو روکنے کے لیے اسلام آباد بھیجنے کی درخواست کی گئی تھی تاہم صوبائی حکومت کی طرف سے صرف دو ہزار پولیس اہلکاروں کو اسلام آباد بھیجا گیا۔

پولیس حکام کے مطابق سندھ پولیس کے یہ اہلکار گذشتہ تین ہفتے سے اسلام آباد کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر رہے۔

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق وفاقی حکومت کی طرف سے  لانگ مارچ روکنے سے متعلق اقدامات کرنے کے لیے اسلام آباد پولیس کے حکام کو 14 کروڑ روپے کی خصوصی گرانٹ فراہم کی گئی تھی۔

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق سندھ پولیس کی طرف سے جو نفری بھیجی گئی تھی اس میں ایک اہلکار پر روزانہ ایک ہزار روپے سے لیکر بارہ سو روپے کا خرچہ آ رہا ہے اور یہ رقم وزارت داخلہ کی طرف سے اسلام آباد پولیس کو دی جانے والی خصوصی گرانٹ سے ہی خرچ کی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ سندھ حکومت کی طرف سے بھی اسلام آباد آنے والے ان پولیس اہلکاروں کو ٹی اے ڈی اے دیا جا رہا ہے۔

اسلام آباد کی تاریخ میں ایسے مواقع بہت کم آئے ہیں جس میں وفاقی دارالحکومت میں امن و امان کی خاطر سندھ سے پولیس منگوائی گئی ہو۔

اس معاملے میں ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کسی لانگ ماچ یا احتجاجی مظاہرے کو روکنے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے جو گرانٹ دی جاتی ہے اس کی جانچ پڑتال نہ ہونے کے برابر ہے۔

پولیس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں جو لانگ مارچ کیا گیا تھا اس سے متعلق امن اومان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے اسلام آباد پولیس کے جو اخراجات آئے تھے وہ پانچ کروڑ سے زائد تھے اور اس سے متعلق جو بل وزارت داخلہ کو بھیجا گیا تھا اس میں صرف سٹیشنری کا بل پندرہ لاکھ روپے تھا۔

اس سے پہلے اسلام آباد میں جتنے بھی انٹرنیشنل ایونٹ کے علاوہ  لانگ مارچ یا بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے مظاہرے ہوئے ہیں ان کو روکنے کے لیے پنجاب کانسٹیبلری کے علاوہ صوبہ خیبر پختو خوا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے پولیس  کو طلب کیا جاتا رہا ہے۔

ریبنجرز اور فرنٹیئیر کانسٹیبلری وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں، اس لیے کسی کو درخواست کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

پنجاب، صوبہ خیرپختونخوا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اس لیے وہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے پولیس کی نفری نہیں مل سکی۔

پولیس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سندھ پولیس کے اہلکاروں کے لیے رہائش کے انتطامات

مواد پر جائیں
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر

بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں

سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

مواد پر جائیں

سندھ سے جو دو ہزار پولیس اہلکار اسلام آباد آئے تھے ان کی رہائش کے انتظامات نہ ہونے کے برابر تھے۔ ان میں سے کچھ اہلکاروں کو فیصل مسجد اور پاک سیکرٹریٹ میں واقع مسجد میں ٹھرایا گیا تھا جبکہ کچھ کو حاجی کیمپ اور ترنول کے قریب زیر تعمیر نجی ہاوسنگ سوسایٹیز میں ان کی عارضی رہائش کا انتطام کیا گیا تھا۔

سب انسپکٹر سے لے کر ایس پی رینک کے افسران کو پولیس لائن میں ٹھرایا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر ان پولیس اہلکاروں کے لیے رہائش کے جو انتظامات کیے گئے تھے اس کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بہت سے پولیس اہلکاروں کا نام لیے بغیر باتھ روم اور نہانے کے انتظامات مناسب نہ ہونے کا گلہ شکوہ بھی سوشل میڈیا پر نظر آتا رہا۔

ایسی بھی اطلاعات سامنے آئی ہیں جس میں سندھ پولیس کے اہلکار واپس جانے کے لیے اپنے افسران پر دباؤ ڈلوانے کے لیے  سیاسی اثرو رسوخ استعمال کر رہے ہیں۔

سندھ پولیس کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ وہ ضلع لاڑکانہ میں تعینات ہیں اور پہلی مرتبہ اپنے ڈسٹرکٹ سے باہر ڈیوٹی کے لیے گھر سے نکلے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ کانسٹیبل ہیں اور اسلام آباد میں قیام کا ان کی زندگی کا بڑا تلخ تجربہ ہے کہ جہاں پر کھانے پینے کا اچھا انتظام ہے اور نہ ہی رہنے کی جگہ ہے۔

پولیس

،تصویر کا ذریعہEPA

انھوں نے کہا کہ انھیں دریاں بچھا کر زمین پر سونا پڑتا ہے اور کبھی تو دریاں بھی دستیاب نہیں ہوتیں تو انھیں گھاس پر ہی رات بسر کرنا پڑتی ہے۔

’جس جگہ ٹھہرایا گیا ہے وہاں پر دس عارضی باتھ روم بنائے گئے تھے جبکہ پولیس اہلکاروں کی نفری پانچ سو سے زیادہ تھی اور یہ انتظامات نہ ہونے کے برابر تھے۔‘

 سندھ پولیس کے اہلکاروں کو اسلام آباد طلب کرنے پر عمران خان نے  لانگ مارچ کے دوران ایک تقریر میں کہا تھا کہ جب ان کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچے گا تو سندھ پولیس کے اہلکار اس لانگ مارچ میں ان کے ساتھ شامل ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیے

واضح رہے کہ اس وقت بھی فیصل مسجد میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکار بڑی تعداد میں موجود ہیں جنھیں لانگ مارچ کے سلسلے میں امن وامان کی صورت حال برقرار رکھنے کے لیے اسلام آباد طلب کیا گیا۔

 اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سندھ پولیس کے اہلکاروں کو واپس بھیجنے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ فی الوقت پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے لانگ مارچ کو مؤخر کردیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے دوبارہ اسلام آباد جانے کے لیے لانگ مارچ کا اعلان ہوا تو اس کو دیکھتے ہوئے اگر ضرورت پڑی تو صوبائی حکومت کو دوبارہ بھی درخواست بھیجی جاسکتی ہے۔

پولیس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس کے پاس اس طرح کے لانگ مارچ اور احتجاجی مظاہروں کو روکنے کا تجربہ نہیں، اس لیے انھیں فرنٹ یا سکیورٹی کے دوسرے حصار میں نہیں رکھا گیا بلکہ انھیں دوسری ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سندھ پولیس کے اہلکاروں کی دیکھ بھال کے انتظامی اختیارات اسلام آباد پولیس کے پاس نہیں تھے بلکہ یہ اختیارات سندھ پولیس کے افسران کو ہی تفویض کیے گئے تھے۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے آٹھ ہزار کے قریب پولیس رینجرز اور ایف سی کے اہلکار اسلام آباد میں موجود ہیں۔

ایف سی اور رینجرز کے اہلکار کتنے عرصے تک اسلام آباد میں رہیں گے اس بارے میں نہ تو اسلام آباد پولیس کے حکام اور نہ ہی وزارت داخلہ کے حکام کوئی حتمی رائے دے رہے ہیں۔