پاکستان میں کاروباری طبقے کے اعتراض کے بعد ’ٹیکس فراڈ‘ پر گرفتاری سے متعلق اختیار میں نرمی

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, تنویر ملک
- عہدہ, صحافی
پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں مبینہ ٹیکس فراڈ پر انکوائری اور گرفتاری سے ملک کے کاروباری طبقے کے ساتھ پیدا ہونے والے تنازعے کے بعد ٹیکس قوانین میں کچھ ترامیم کی گئی ہیں۔
پاکستان کے ریونیو ڈویژن کی جانب سے سیلز ٹیکس جنرل آرڈر جاری کیا گیا ہے جس میں سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کے سیکشن 37 اے کے تحت قانونی کارروائی کا طریقہ کار طے کیا گیا ہے۔
نئے جنرل آرڈر کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو مبینہ ٹیکس فراڈ میں کسی بھی انکوائری کا آغاز اُس وقت تک نہیں کرے گا جب تک کہ کمشنر سے منظوری حاصل نہ کر لی جائے اور انکوائری مکمل کرنے کے بعد بھی کمشنر اس وقت تک مزید کارروائی نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ کاروباری برادری کو مطمئن نہ کر لے اور ان لینڈ ریونیو آپریشنز کے ممبر سے اس سلسلے میں ضروری منظوری حاصل نہ کر لے۔
آرڈر کے مطابق کمشنر پر ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشنز کی جانب سے گرفتاری کی منظوری حاصل کرنے سے پہلے کاروباری طبقے کی جانب سے نامزد دو نمائندوں سے مشاوات لازمی ہے جن کو بورڈ نوٹیفائی کرے گا۔
آرڈر میں کہا گیا ہے کہ مختلف تجارتی تنظیمیں اپنے نمائندے نامزد کریں گی، جن میں سے ایف بی آر ہر ریجن کے لیے دو نمائندے منتخب کرے گا۔ ہر فہرست شدہ تجارتی تنظیم کو دو ایسے افراد نامزد کرنے ہوں گے جو ’ٹیکس قوانین کے پابند اور معقول حد تک اہم ٹیکس دہندگان ہوں۔‘
پاکستان کے سابق نگران وفاقی وزیر تجارت اور کاروباری شخصیت گوہر اعجاز نے ایکس پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’کاروباری طبقے کی فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے بعد یہ ممکن ہوا جس کی وجہ سے فنانس ایکٹ 2025 میں ایف بی آر کو دیے جانے والے ’ڈریکونین اختیارات‘ سے کاروباری طبقے کو ریلیف ملا۔‘
واضح رہے کہ صنعت کاروں اور تاجروں کی جانب سے بجٹ میں فنانس ایکٹ میں شامل کیے جانے والے اقدامات کے خلاف ملک گیر ہڑتال بھی کی گئی تھی۔
اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ فنانس ایکٹ میں ایسے کیا اقدامات لیے گئے جس کے بعد کاروباری براداری میں تشویش پیدا ہوئی۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اس حوالے سے بی بی سی نے یہ تحریر گذشتہ ماہ شائع کی تھی، جسے آج دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
مبینہ ٹیکس فراڈ پر گرفتاری کا اختیار
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
ملک میں کاروباری افراد کی جانب سے فنانس ایکٹ میں لیے گئے اقدامات میں سے سب سے زیادہ جس چیز کی مخالفت کی گئی، وہ ٹیکس قانون میں شامل سیکشن 37 اے اور 37 بی ہیں۔
ٹیکس امور کے ماہر ذیشان مرچنٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ سیکشنز فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حکام کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ مبینہ ٹیکس فراڈ پر تحقیقات کر کے اس میں ملوث افراد کو گرفتار کر سکیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس کا ایک طریقۂ کار بنایا گیا، جس کے تحت کسی پر ٹیکس فراڈ کے شک کی صورت میں حکام اسے بلائیں گے کہ وہ بیان حلفی دے، کاغذات جمع کرائے اور اس کی انکوائری چھ مہینے میں مکمل کرے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد اگر کسی پر ٹیکس میں ہیر پھیر کا شک ہو تو انکم ٹیکس کمشنر اس کے لیے رسمی تحقیقات کی منظوری دے گا، ایسے فرد سے مزید دستاویزات طلب کرے گا اور اگر شواہد ناکافی یا کمزور ہوئے تو تحقیقات بند کر دے گا۔
تاہم انھوں نے واضح کیا کہ گرفتاری اس صورت میں ہو گی کہ اگر مبینہ ٹیکس فراڈ پانچ کروڑ روپے سے زیادہ کا ہو، ایف بی آر کی تین رکنی کمیٹی اس گرفتاری کی منظوری دے اور ملزم ایف بی آر کے تین نوٹسز کا جواب نہ دے۔ یا پھر اس کے فرار ہونے یا اس کی جانب سے شواہد ختم کرنے کا اندیشہ ہو۔
ذیشان مرچنٹ نے کہا کہ تحقیقات کے دوران عدالتی وارنٹ کے ذریعے گرفتاری کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ملزم کو تحریری طور پر بتایا جائے گا کہ اسے کیوں گرفتار کیا جا رہا ہے اور وہ کریمینل کیسز کی طرح اس میں ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔
تاجر طبقے کی جانب سے فنانس ایکٹ میں ایک اور اقدام پر بھی احتجاج کیا گیا ہے جس میں کسی سودے پر ادائیگی پر دو لاکھ تک کیش ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ لیکن دو لاکھ سے زائد پر جو کیش ادا کیا جائے گا، اسے ٹیکس والی آمدنی شمار کیا جائے گا۔
مثلاً اگر تین لاکھ کی کیش ادائیگی کی جائے گی تو دو لاکھ سے اوپر ایک لاکھ روپے میں سے آدھی رقم پر ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔
تاجر تنظیموں کی جانب سے فنانس ایکٹ کے اقدامات کی مخالفت کیوں
اس بارے میں بات کرتے ہوئے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر جاوید بلوانی نے دعویٰ کیا کہ ملک میں ٹیکس تنازعات اور اس کی چوری پر بننے والے کیسز میں سے 98 فیصد کا فیصلہ ٹیکس دہندگان کے حق میں آتا ہے اور صرف دو فیصد میں ٹیکس چوری ثابت ہوتی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے یہ سوال اٹھایا کہ ٹیکس چوری کے الزام پر گرفتاری ہو گی، بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے جائیں گے اور بعد میں اگر کچھ بھی نہ نکلا تو اس شخص کی عزت اور کاروباری ساکھ کا کیا ہو گا؟
جاوید بلوانی نے کہا یہ ایسے اقدامات ہیں جو تاجر برادری کے لیے بہت تشویش ناک ہیں جس کی وجہ سے کاروباری افراد ہڑتال پر مجبور ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ ’دو لاکھ سے اوپر کی کیش ادائیگی پر معیشت کو دستاویزی بنانے کا جو اقدام اٹھایا گیا، وہ بھی بڑا عجیب ہے۔۔۔ اکانومی کو ڈاکیومنٹ کرنے کے لیے ایف بی آر کے پاس انفورسمنٹ کا شعبہ ہے لیکن اس کی جانب سے کوئی کام کرنے کی بجائے ایک نیا اقدام لیا گیا کہ دو لاکھ سے اوپر والی کیش ادائيگی والی رقم پر ٹیکس لگا دیا جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ جو لوگ آج ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں، وہ رضاکارانہ شامل ہوئے ہیں اور جو لوگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں انھیں ہی ایسے اقدامات سے پریشان کیا جا رہا ہے۔
کیا کاروباری افراد کی تشویش جائز ہے؟
اس بارے میں ٹیکس ماہرین کا کہنا ہے کہ دراصل ملک میں ٹیکس فراڈ کی تعریف میں ترمیم کی گئی ہے۔
ذیشان مرچنٹ نے بتایا کہ ٹیکس فراڈ میں ہر اس چیز کو شامل کر دیا گیا ہے جس پر پہلے صرف معمولی سزا تھی، جیسے اب غلط انوائس، غلط بینک اکاؤنٹ دینا اور غلط بینک اکاؤنٹ کھولنا سب ٹیکس فراڈ قرار دیے گئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’ٹیکس فراڈ کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے اوراس میں بہت سارے لوگ آئیں گے۔‘
مرچنٹ نے اسے ’ڈریکونین قانون‘ قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔
ان کی رائے ہے کہ مشکلات ایسے لوگوں کے لیے پیدا ہوں گی جو پہلے سے ٹیکس سسٹم میں ہیں۔ ’جو ٹیکس فراڈ کرتے ہیں وہ ملی بھگت کے ساتھ کرتے ہیں۔ اگر اس پہلو سے دیکھا جائے تو ٹیکس ادا کرنے والا پریشان ہے کہ وہ ٹیکس دے رہا ہے اور پھر بھی مسائل کا شکار ہے اور جو سسٹم کو دھوکہ دے کر ٹیکس نہیں ادا کر رہے، وہ آزاد ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سسٹم کو مشکل بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ اس سال ٹیکس ریٹرن جمع کروانے والوں میں کمی ہو سکتی ہے۔‘
مرچنٹ نے کہا کہ ’دو لاکھ سے زائد کیش والا اقدام معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے ٹھیک ہو سکتا ہے تاہم ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایف بی آر ایک دن اٹھے اور کہے کہ فوراً سے یہ کام شروع کر دو۔ ایف بی آر کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو کچھ وقت دے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ایف بی آر کو بھی لچک دکھانی ہو گی اور ٹیکس ادا کرنے والوں کو بھی ٹیکس قانون پر زیادہ عمل درآمد کرنا پڑے گا۔‘
ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے اس سلسلے میں بی بی سی کو بتایا کہ 'کسی ٹیکس فراڈ کے ثابت ہونے کے بعد گرفتاری کرنا مناسب ہے تاہم اس سے پہلے گرفتاری صحیح نہیں ہے جس کی وجہ سے تاجر احتجاج کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے دو لاکھ سے زائد کیش پر ٹیکس کے معاملے پر رائے دی کہ ’حکومت ریٹیلرز پر تو ٹیکس نہیں لگا سکی، اس لیے ڈیجیٹیل موڈ پر زور دے رہی ہے۔ تاہم یہ کام ایک دم نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے پہلے ایسا انفراسٹرکچر بنانا پڑے گا اور سہولیات فراہم کرنا ہوں گی کہ لوگ نقد معیشت سے ڈیجیٹل معیشت کی طرف مائل ہوں۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
فنانس ایکٹ کے اقدامات پر حکومت کا کیا موقف ہے؟
بی بی سی نے اس معاملے میں وزیر اعظم کے کوآرڈینیٹر برائے تجارت راںا احسان افضل سے بات کی ہے جو حکومتی کمیٹی کا حصہ ہیں اور کاروباری افراد سے مذاکرات کے عمل میں شامل ہیں۔
رانا احسان کا کہنا ہے کہ فنانس ایکٹ میں جن ٹیکس قوانین پر کاروباری افراد اعتراضات کر رہے ہیں ان میں ٹیکس فراڈ میں گرفتاری قابل ذکر ہے۔ ’اس سلسلے میں مختلف مراحل ہیں اور غلط انوائسنگ پر ٹیکس فراڈ میں ملوث کسی شخص کو تین نوٹس بھیجے جائیں گے اور اس کی گرفتاری میں عدالت بھی شامل ہو گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب حکومتی کمیٹی نے تاجروں سے مذاکرات کیے تو ان کی تسلی کروا دی تھی۔ تاجروں کے دھڑوں میں ہڑتال پر اختلاف پر انھوں نے کہا یہ ان کی چیمبرز کی سیاست کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔‘
انھوں نے دو لاکھ سے زائد کیش ادائیگی پر ٹیکس والے مسئلے پر کہا کہ ’تاجر اس کی حد پچاس لاکھ روپے چاہتے تھے تاہم مذاکرات میں اس سلسلے میں بھی پیشرفت ہوئی ہے اور کمیٹی اس کو دیکھ رہی ہے۔‘
تاجر تنظیموں کی جانب سے تحریری یقین دہانی کے سلسلے میں انھوں نے کہا کہ کمیٹی نے 30 دن میں اپنا کام مکمل کرنا ہے جس کی منظوری وزیر اعظم پاکستان دیں گے۔
انھوں نے کہا ’ہمیں اس میں آئی ایم ایف پروگرام اور اس کی شرائط کو بھی مد نظر رکھنا ہے۔‘












