طیب اردوغان: ‌‌صدر پوتن جنگ ختم کرنے پر رضامند ہیں

Ukrainian soldiers ride in an armored tank in the town of Izium, recently liberated by Ukrainian Armed Forces, in the Kharkiv region (19 Sept)

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناس ماہ ایک بڑے جوابی حملے میں یوکرینی افواج نے ملک کے شام مشرقی علاقوں کو روسی قبضے سے چھڑا لیا ہے
    • مصنف, پال کربی
    • عہدہ, بی بی سی نیوز

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں روسی صدر یوکرین کے خلاف جنگ ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور اس حوالے سے جلد ہی ایک ’اہم قدم‘ اٹھایا جائے گا۔

ترکی کے صدر کا کہنا تھا حال ہی میں روسی صدر کے ساتھ گفتگو سے انھیں لگتا ہے کہ وہ ’اس (جنگ) کو جس قدر جلد ممکن ہو ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ رواں ماہ کے دوران یوکرین نے اپنے ملک کے ایک بڑے علاقے کو روس کے قبضے سے چھڑا لیا ہے۔

صدر اردوغان کے خیال میں یوکرین میں جنگ کی وجہ سے روس کے لیے ’خاصے مسائل‘ پیدا ہو گئے ہیں۔

صدر اردوغان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے ازبکستان میں ہونے والی ایک سربراہ کانفرنس کے دوران ان کی صدر پوتن سے ’بہت تفصیل میں بات ہوئی ہے۔‘

امریکی نشریاتی ادارے پی بی ایس کو انٹرویو دیتے ہوئے ترک رہنما کا کہنا تھا کہ صدر پوتن کے ساتھ بات چیت سے انھیں محسوس ہوا کہ وہ جنگ کا جلد خاتمہ چاہتے ہیں۔

مسٹر اردوغان کے مطابق ’دراصل وہ (صدر پوتن) مجھے یہی بتانا چاہ رہے تھے کہ وہ اس جنگ کو جلد از جلد ختم کرنا چاہتے ہیں۔ (ان کی باتوں سے) مجھے یہی لگتا ہے، کیونکہ موجودہ صورت حال (روس کے لیے) خاصی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔‘

ترک صدر کا مزید کہنا تھا روس اور یوکرین کے درمیان دو سو ’یرغمال‘ افراد کا تبادلہ جلد ہی ہو جائے گا، تاہم انھوں نے کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ دونوں ممالک کے درمیان قیدیوں کا تبادلے میں کون کون شامل ہو گا۔

Russian President Vladimir Putin meets with Turkish President Recep Tayyip Erdogan on the sidelines of the Shanghai Cooperation Organisation (SCO) leaders' summit in Samarkand on September 16, 2022.

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنروس اور یوکرین، دونوں کے اتحادی ہونے کے حوالے سے صدر اردوگان کی کوشش رہی ہے کہ تصفیے کے لیے کوئی درمیانی راہ نکالی جائے

یاد رہے کہ ترک صدر متعدد مرتبہ روس اور یوکرین کے درمیان تصفیہ کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں جہاں وہ ’نیٹو کا رکن ہونے کے ساتھ ساتھ روس کے خلاف مغربی ممالک کی پابندیوں کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

جنگ کے دوران انھوں نے یوکرین سے اجناس کی برآمد بحال کرنے میں اقوام متحدہ کی معاونت بھی کی اور گزشتہ ہفتے انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کے لیے دونوں ممالک کے براہ راست مذاکرات کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔

دوسری جانب، یوکرین کے پورے مشرقی علاقے پر روسی افواج کے دو ماہ بعد کے قبضے کے بعد ، یوکرین نے اپنے کچھ علاقے دوبارہ آزاد کرا لیے ہیں۔

لوہانسک کے علاقے کے یوکرینی رہنما سرہی ہیدائی کا کہنا ہے کہ روسی فوجی بلوہارویکا کے گاؤں سے نکل گئے ہیں، تاہم روسی باقی علاقوں پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ ’صاف نظر آ رہا کہ قابضین گھبراہٹ کا شکار ہیں۔‘

رواں ماہ کے دروان مسٹر ارودغان نے مغربی ممالک پر الزام لگایا تھا کہ وہ روس کو طیش دلانے کی حکمت عملی پر عمل کر رہے ہیں۔ ترک صدر نے خبردار کیا تھا کہ اس بات کا امکان کم ہے کہ جنگ جلد ختم ہو جائے۔

گزشتہ ہفتے روسی صدر نے کہا تھا کہ وہ تو یوکرینی صدر سے مِلنے کو تیار ہیں لیکن صدر زیلنسکی ملاقات نہیں کرنا چاہتے۔ انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی سےبات کرتے ہوئے بھی صدر پوتن نے کہا تھا کہ وہ جس قدر جلد ممکن ہو جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں۔

تاہم، روس نے ابھی تک اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ یوکریی صدر کے اس مطالبے کو قبول کرنے کو تیار ہے کہ وہ یوکرین کے تمام علاقوں سے نکل جائے گا، بشمول اس علاقے کے جس پرں روس نے سنہ 2014 میں قبضہ کر لیا تھا۔

یاد رہے کہ سنہ 2014 میں روس نے کرائمیا پر قبضہ کر لیا تھا اور اب کرائمیا کے سابق صدر نے کہا ہے کہ روس نواز علیحدگی پسندوں کو چاہیےکہ وہ کرائمیا میں ’ریفرنڈام‘ کرا کے دیکھ لیں کہ لوہانسک اور دونسیک کے لوگ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں۔

سابق صدر آج کل روس کے قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں صدر پوتن کئی مرتبہ اس بات کا اظہار کر چکے ہیں روس کا اصل مقصد یوکرین کے ان علاقوں کو یوکرین سے ’آزاد‘ کرانا ہے۔