آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
پاکستان میں مردم شماری پر سیاسی جماعتوں کے تحفظات اور ان کی حقیقت
- مصنف, عبداللہ فاروقی
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان میں چھٹی خانہ اور مردم شماری کا دوسرا مرحلہ منگل سے شروع ہو گیا ہے۔ اِس مرحلے کے دوران ملک بھر کے 88 اضلاع میں خانہ و مردم شماری کی جائے گی۔
پنجاب اور سندھ کے 21، بلوچستان 17، خیبرپختونخوا 12، فاٹا کے چھ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے پانچ، پانچ اضلاع شامل ہیں۔
اس دوسرے مرحلے میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی مردم شماری ہوگی اور یہ عمل آئندہ ماہ کی 24 تاریخ تک جاری رہے گا۔
بی بی سی اردو کو تحقیق کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں مردم شماری پر مخلتف سیاسی و قوم پرست جماعتوں کو لاحق خدشات و تحفظات صرف اپنی سیاسی عمل داری قائم رکھنے اور اپنی قومیت یا اپنے حمایتی ووٹروں کو یکجا رکھنے کے گرد ہی گھومتے ہیں۔
کسی بھی صوبے میں کسی بھی سیاسی یا قوم پرست جماعت نے مردم شماری کے دوران صحت عامہ، مذہب، تعلیم یا پھر ترقیاتی منصوبوں یا پھر قبائلی علاقوں میں مسمار گھروں کی گنتی کو اپنے اعتراضات یا تحفظات میں بنیاد نہیں بنایا۔ تمام صوبوں میں سیاسی تحفظات اور خدشات کی نوعیت مخلتف ہے۔
بلوچستان
رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے اِس صوبے میں بالعموم سیاسی جماعتوں کو خانہ و مردم شماری پر تحفظات نہیں لیکن حکمراں جماعت کے چند ممبران کو دربدر یا نقل مکانی کرنے والوں کی گنتی کے عمل پر تشویش ہے۔ بلوچستان میں قوم پرست کو خدشہ ہے کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مقیم ہے اور اُنھوں نے پاکستانی دستاویزات حاصل کی ہوئی ہیں۔ اُن کے اندراج کی صورت میں بلوچ آبادی کا بڑا حصہ پشتون آبادی کے زمرے میں آجائے گا جس کا سیاسی اور سماجی دونوں لحاظ سے نقصان بلوچ آبادی پر پڑے گا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
بلوچ قوم پرست تنظیم بلوچستان نیشنل پارٹی کا موقف ہے کہ بلوچ آبادی والے کئی علاقوں میں فوجی آپریشن جاری ہے۔
آواران اور کیچ میں سخت سیکیورٹی ہے اور بڑی آبادی وہاں سے نقل مکانی کر چکی ہے، کئی گھروں کو آپریشن کے دوران نقصان پہنچا ہے اور کئی تباہ ہو چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں وہاں مردم و خانہ شماری کے نتائج حقیقت سے بالکل اُلٹ آ سکتے ہیں۔
قوم پرست جماعت کا مطالبہ تھا کہ افغان مہاجرین کی واپسی اور آپریشن ختم ہونے تک مردم شماری ملتوی کی جائے۔ بلوچ قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ افغانستان سے متصل بلوچستان کے علاقے قلعہ عبداللہ کی آبادی آخری مردم شماری کے بعد سے دوگنی ہوگئی ہے، جس کی وجہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد کا وہاں آکر آباد ہوجانا ہے۔
کاکڑ قبائل کے بھی افغان مہاجرین کے حوالے سے تحفضات ہیں کہ اگر اُنہیں مبینہ جعلی دستاویزات کی بنیاد پر ایک بار شہری تصور کر لیا گیا تو وہ علاقے کی سیاسی، سماجی اور معاشی چیزوں میں حصہ دار بن جائیں گے۔
پشتون قوم پرست جماعت پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کا موقف ہے کہ 70 کی دہائی میں جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا تو بلوچوں نے جال سازی کے ذریعے اپنی آبادی بڑھائی جس کا نقصان پشتونوں کی نشستوں اور ملازمتوں کے کوٹے پر پڑا۔
بلوچستان میں مختلف غیر قانونی تنظیمیں مردم شماری کے عملے پر حملے بھی کر رہے ہیں۔ ثبوت کے طور پر وہ گذشتہ انتخابات کی مثال دیتے ہیں کہ صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر صرف چند سو ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔
خیبر پختونخوا
اِس صوبے میں حکمراں اتحاد میں شامل جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا تھا کہ صوبے کے لگ بھگ 60 سے 70 ہزار افراد روزگار کے سلسلے میں بیرون ممالک میں مقیم ہیں اور خطیر رقم زرِ مبادلے کی صورت میں پاکستان بھیجتے ہیں۔ لہذا اُنہیں بھی شمار کیا جائے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اُن کی غیر موجودگی میں اُن کے اہلِ خانہ کی مناسب نمائندگی نہیں ہو پائے گی۔
دلیل کے طور پر کہا گیا کہ صوبہ خیبرپختونخوا سے یا تو شدت پسندی یا پھر روزگار کے سلسلے میں ہر گھر سے کم از کم ایک فرد تو ملک سے باہر ہی ہے لیکن مطالبے کو ایک پریس کانفرنس کے علاوہ، عدالتوں یا متعلقہ حکام تک نہیں پہنچایا جاسکا۔
البتہ صوبے کی سکھ برادری نے خود اپنے حق میں آواز اٹھائی اور اعتراض کیا کہ مذہب کے خانے میں سکھ شامل ہی نہیں جبکہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بڑی تعداد میں سکھ موجود ہیں۔
سکھوں کے اِس مطالبے میں کسی سیاسی یا قوم پرست جماعت نے آواز نہیں ملائی۔ یہی حال رہا 'کھوار' زبان بولنے والے چترالیوں کا بھی ہے جنھوں نے نہ صرف اپنی زبان مردم شماری کے فارم میں شامل نہ کیے جانے پر آواز اُٹھائی بلکہ اُس آواز کو عدالت تک بھی لے کرگئے۔
صوبے میں مقامی طور پر بے گھر افراد یا آئی ڈی پیز کی تعداد بھی بہت ہے لیکن قبائلی علاقوں میں انتخابات کا براہ راست اثر نہیں پڑتا لہذا اُن کے مسائل بھی بہت سیاسی جماعتوں کی نگاہ سے اوجھل رہتے ہیں۔ وزیرستان کے آئی ڈی پیز یا تو کیمپ میں رہ رہے ہیں یا پھر کسی کے گھر میں ایسے میں اُن کی گنتی کا طریقہ کار کتنا شفاف ہوسکے گا؟
جلوزئی کیمپ میں زیادہ تر افغانی ہیں لہذا یہ طے کیا گیا کہ اُن کے اعدادوشمار اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین سے لے لیے جائیں گے لیکن وہاں سے تو زیادہ تر افغان باشندے جا چکے ہیں اور اب جلوزئی کیمپ میں آئی ڈی پیز رہ رہے ہیں اُن کی گنتی ہو پائے گی؟
قبائلی علاقوں میں گھروں کی تباہی کے بعد کیسے طے کیا جائے گا کہ وہاں کس کا گھر تھا اور کون وہاں جا کر نشاندہی کرئے گا اور کون گھر کے ممبران کا اندراج کرائے گا کیونکہ لوگ یا کیمپوں میں ہیں یا پھر گھروں میں رہ رہے ہیں؟
افغان شہری جنھوں نے کارڈ بنائے ہوئے ہیں وہ اب اپنے آپ کو شامل کرا رہے ہیں کیا اس کی روک تھام ہو سکے گی؟
یہ وہ سوالات ہیں جو جواب اور حل طلب ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی توجہ حاصل نہیں کر پا رہے۔
سندھ
مردم شماری کے معاملے میں یہ صوبہ واضح طور پر دیہی اور شہری آبادی میں بٹا ہوا ہے جس کی وجہ بھی اُتنی ہی واضح ہے یعنی سیاسی عمل داری۔ سندھ اسمبلی میں دو جماعتوں کے ممبران کی کثرت ہے، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ۔
دیہی سندھ سے زیادہ تر نشستیں پیپلز پارٹی جبکہ شہری سندھ سے ایم کیو ایم نشستیں حاصل کرتی ہے۔
حالیہ مردم شماری کے دوران سندھ کے دیہاتوں سے اکثر یہ آوازیں سنیں گئیں کہ گھر میں کوئی بھی زبان بولیں لیکن مردم شماری کے فارم میں 'سندھی' ہی لکھوائیں تاکہ حلقہ بندیاں، ملازمتوں میں کوٹے اور فنڈز پر کوئی حرف نہ آئے۔
اِس کے بر عکس شہری سندھ میں اِس بات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ شہری آبادی کو کم دکھایا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم نے تو مردم شماری کے آغاز سے قبل اپنے تحفظات کا اظہار بھی کر دیا تھا۔
سندھ جیسے کثیر السانی صوبے میں شہری آبادی کو کم دکھانے کی دلیل پیش کرتے ہوئے فاروق ستار بولے کہ دیہی سندھ کے شہروں گھوٹکی، لاڑکانہ اور شکارپور کی آبادیاں گذشتہ 19 سالوں میں تین سو اور چار سو فیصد بڑھ گئیں جبکہ سندھ کے شہری علاقوں کی آبادی صرف دو گنی ہوئی جو کہ غیر فطرتی اور غیر قدرتی بات ہے۔
اِس کا ثبوت مردم شماری کے 'بلاک' کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے۔ قوم پرست جماعتوں یعنی جیئے سندھ قومی محاذ، قومی عوامی تحریک اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی نے لسانی یا سیاسی طور پر کسی اختلاف کا اظہار نہیں کیا۔
پنجاب
آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے اس صوبے کی صورتحال صوبہ سندھ کے برعکس ہے۔
یہاں حکمراں جماعت کو شہری علاقوں سے اکثریت حاصل ہے جبکہ سندھ میں حکمراں جماعت کو دیہی علاقوں سے۔
اِس صوبے میں اپوزیشن جماعتوں اور قوم پرست جماعتوں نے اُن علاقوں میں مارکنگ اور مردم شماری کے عمل پر تحفظات ظاہر کیے ہیں جہاں صوبے اور وفاق میں حکمراں جماعت کی اکثریت نہیں۔
پیپلز پارٹی کے شوکت بصرہ نے کچی آبادیوں میں ووٹروں کو تقسیم کرنے کی بات کی لیکن اُن کی جماعت نے اِس معاملے میں کوئی ثبوت یا دلیل پیش نہیں کی۔ سرائیکی بیلٹ اور جنوبی پنجاب کے حقوق کی بات کرنے والی قوم پرست جماعتوں کا مسئلہ اگلے انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے مطابق کرایا جانا ہے۔
نیشنل عوامی پارٹی کی نمائندگی اسمبلی میں تو ذیادہ نہیں لیکن گدی نشینی اور برادری کی بنیاد پر مخدوم افتخار حسن گیلانی کا اثر و رسوخ اپنے علاقے پر خاصہ ہے۔
ان کے بقول اگر مردم شماری درست انداز میں ہو تو صرف اُن کے علاقے میں یعنی اوچ شریف تک 70 سے 80 ہزار ووٹروں اور دو سے تین نشستوں کا اضافہ ہونا چاہیے جس کا اثر آئندہ انتخابات پر پڑنا چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نو سال کے التوا اور 19 سال بعد کرائی جانے والی یہ خانہ و مردم شماری آبادی کے دباؤ سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں، لوگوں کو ملازتوں کے مواقع اور بین الاقوامی قرضہ جات کے تناظر میں بھی اُتنی ہی اہم ہے جتنی ایک سال کے عرصے میں ملک میں ہونے والے انتخابات کے تناظر میں۔
مردم شماری کے ایک مرحلے کے اختتام اور دوسرے مرحلے کے آغاز تک بین الاقوامی مبصرین کی رائے تو سامنے نہیں آئی لیکن ذرائع ابلاغ نے بھی اِس عمل کے دوران زیادہ نقائص کی نشاندہی نہیں کی ہے۔